Header Ads Widget

Responsive Advertisement

قربانی : اہمیت و فضیلت - احکام و مسائل

 

تحریر : ڈاکٹر رحمت اللہ محمد موسی السلفی 

(چیرمین: مرکز الفرقان التعلیمی الخیری )

(حاجی پور، کٹیھار، بہار)

 

قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والے شخص سے یہ بات مخفی نہیں کہ قربانی ہر زمانے میں مشروع رہی ہے ۔ قربان اس مخصوص مالی عبادت کا نام ہے جس میں انسان اپنے محبوب مال کو اللہ کی راہ میں قربان کرتا ہے اور دل میں یہ عزم جواں رکھتا ہے کہ اگر اللہ کی راہ میں مال کے علاوہ جان کی بازی لگانے کی ضرورت پڑے تو اس میں کسی طرح کی ہچکچاہٹ و تردد نہ کرے گا بلکہ باخوشی اپنے محبوب ترین و قیمتی شئی کو اللہ کی راہ میں قربان کردےگا ۔ بلاشبہ قربانی کی اہمیت انسان کی زندگی میں بہت زیادہ ہے ۔ جو قوم اس فریضہ میں کوتاہی برتتی ہے وہ اپنے مذہب وملی تشخص کو باقی نہیں رکھ پاتی بلکہ وہ دھیرے دھیرے اپنے وجود کو ختم کر دیتی ہے ۔ اس کے برخلاف جو قوم عزت و ناموس کی حفاظت ، جان و مال کی بقاء و تحفظ میں پیش پیش رہتی ہے ، اس کی تاریخ روشن و پائدار ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ساری قوموں نے قربانی کو اہمیت دی اور مذہبی و سیاسی سربلندی کے لئے خوب خوب بلیدان پیش کیا ۔ ارشاد بانی ہے ’’ ولکل أمۃ جعلنا منسکا لیذکروا اسم اللہ علی ما رزقھم من بھیمۃ الأنعام ‘‘  ( سورۂ حج : ۳۴)  اور ہر امت کیلئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے دے رکھے ہیں ۔ 

روئے زمین پر سب سے پہلے حضرت آدم کے بیٹوں نے قربانی کی ، جن میں ہابیل کی قربانی کو اللہ تعالی نے شرف قبولیت بخشا ۔ اسی طرح حضرت ابرہیم علیہ السلام نے توحیدی آزمائش میں جو بے مثال و عدیم النظیر قربانی پیش کی اسے اللہ تعالی نے رہتی دنیا تک تمام مسلمانوں کے لئے سنت بنا دیا اور ’’انا اعطیناک الکوثر ، فصل لربک وانحر‘‘(سورۂ کوثر : ۲- ۱) کے ذریعہ مشروع قرار دیا ۔ چنانچہ خود نبی کریم ﷺ نے قربانی کی اور مسلسل دس سال تک کی ۔ اس کے بعد صحابۂ کرام نے بھی کی ۔

قربانی کی فضیلت :  قربانی کی فضیلت متعدد احادیث میں بتائی گئی ہے لیکن زیادہ تر حدیثیں ضعیف ہیں جیسے یہ حدیث ’’ ما عمل ابن آدم یوم النحر عملاً أحب الی اللہ عز و جل من ھراقۃ دم و انہ لیأتی یوم القیامۃ بقرونھا و اظلافھا و اشعارھا ‘‘  (سنن ابن ماجہ ، الاضاحی ) شیخ البانی ؒ نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے ۔ (ضعیف سنن ابن ماجہ  : ۶۳۱) اسی طرح وہ حدیث جس میں آپ نے صحابہ کے استفسار کے جواب میں فرمایا تھا ’’ سنۃ ابیکم ابرہیم‘‘ ( سنن ابن ماجہ ، الاضاحی ) بھی شیخ البانی کے یہاں ضعیف ہے ۔ (ضعیف سنن ابن ماجہ :’’ ۶۱۴) اول الذکر حدیث میں یوم النحر کو سب سے بہترین عمل قربانی قرار دیا گیا ہے اور ثانی الذکر میں قربانی کو ابرہیم علیہ السلام کی سنت بتایا گیا ہے جس کے بال ، اون ، کھر کے بدلے میں نیکی ملے گی ۔ اس کے مقابلے میں کتب حدیث میں ایسی حدیثیں مل جاتی ہیں جن سے قربانی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ۔ جیسے آپ ﷺ کے بارے میں حضرت انس کا بیان ’’کان یضحی بکبشین‘‘ (متفق علیہ ) کے آپ برابر دو قربانی کرتے تھے ، ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے سو اونٹ کی قربانی کی اس میں امت کے زندہ مردہ تمام افراد کی طرف سے قربانی کی اور بعض روایت کے مطابق حضرت علی کو آپ نے قربانی کی وصیت کی ۔ الغرض قربانی کی کافی فضیلت ہے ، کسی کام کی بہتری و فضیلت کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ ﷺ نے کیا ہے اور کئی سالوں تک کیا ہے ۔ 

قربانی کا حکم :  اس سلسلے میں علماء اسلام اور فقہاء عظام کا اختلاف ہے ۔ جمہور فقہاء اور محدثین کے نذدیک سنت ہے اور بعض فقہاء نے مالداروں کے حق میں واجب مانا ہے لیکن راجح یہی ہے کہ سنت (مؤکدہ) ہے اسلئے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ اذا دخلت العشر و اردا أحدکم أن یضحی فلا یمسن من شعرہ و بشرہ شیأ‘‘ (صحیح مسلم ، الاضاحی) کہ جب ذی الحجہ کا چاند نکل آئے اور کوئی قربانی کرنے کا ارداہ کرے تو وہ اپنے جسم کے بال و ناخن کو نہ کٹوائے ۔ اس میں قربانی کرنے کو انسان کی مشئت پر معلق بتایا گیا ہے ، اسی طرح جب حضرت ابن عمر سے قربانی کے وجوب کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا ’’ھی سنۃ و معروف ‘‘ (صحیح البخاری ، الاضاحی تعلیقاً) کہ یہ سنت اور نیکی کا کام ہے ، امام بخاری اور امام ترمذی نے اپنی اپنی کتابوں میں اسی کو راجح قرار دیا ہے ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دل میں آئے تو کرے ورنہ نہ کرے بلکہ یہ سنت مرغوبہ ہے اور اس کی کافی تاکید وارد ہے اس لئے اگر کوئی صلاحیت کے باوجود قربانی نہ کرے تو مکروہ ہوگا ۔ 

احکام و مسائل :  قربانی کی اہمیت و فضیلت اور مشروعیت و حکم جان لینے کے بعد قربانی کے احکام و مسائل سے واقفیت رکھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ اگر اخلاص و للہیت اور سنت رسول کے مطابق قربانی نہ ہو تو اس کا ثواب نہ ملے گا ۔ اس لئے آئیے قربانی سے متعلق چند احکام و مسائل آپ کو بتادوں ۔ 

جو آدمی قربانی کرنا چاہے اس کے لئے ضروری ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نکلنے کے بعد اپنے جسم کے بال ، ناخن نہ کٹوائے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ’’ اذا دخلت العشر و اردا أحدکم أن یضحی فلا یمسن من شعرہ و بشرہ شیأ‘‘ (صحیح مسلم ، الاضاحی) اب چاہے قربانی کرنے والا مرد ہو یا عورت ،مقیم ہو یا مسافر ،امیر ہو یا غریب سب کیلئے یہی حکم ہے ۔ 

قربانی کا جانور کیسا ہو :  قرآن پاک میں اللہ تعالی نے منصوص طور پر قربانی کے جانور کی تحدید کردی ہے ، سورۂ انعام آیت نمبر ۱۴۳- ۱۴۲ میں بہیمۃ الانعام کی وضاحت کرتے ہوئے بھیڑ ( مزکر مؤنث) ، بکری (مزکر مؤنث) ، اونٹ(مزکر مؤنث)، گائے (مزکر مؤنث)کو قربانی کا جانور قرار دیا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے علاوہ کسی دوسرے جانور کی قرابنی نہیں ہوگی ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے بعد صحابۂ کرام نے بہیمۃ الانعام ہی کی قربانی کی ہے ۔





قربانی کا جانور تمام عیوب و نقائص سے بالکل پاک و صاف ہو بالخصوص وہ چار عیوب جنکی صراحت حدیث نبوی میں موجود ہے ۔ حضرت براء بن عازب کہتے ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’ أربع لا تجوز فی الأضاحی ، العوراء بین عوارھا و المریضۃ بین مرضھا و العرجاء بین ظلعھا و الکسیر التی لا تنقی ‘‘ ( سنن ابی داؤد ، الاضاحی ، قال الالبانی فی الارواء : ۱۱۴۸ صحیح ) یعنی ’’ چار اوصاف و عیوب کے حامل جانور کی قربانی نہیں ہوگی ۔ (۱)  ایسا اندھا جس کا اندھاپن بالکل ظاہر ہو ۔ (۲)  ایسا بیمار جس کا مرض واضح ہو ۔ (۳)  ایسا لنگڑا جس کا لنگڑا پن صاف ہو ۔ (۴)  ایسا دبلا و کمزور جسکی ہڈیوں پر گودا نہ ہو ۔ ایک دوسری حدیث میں حضرت علی کہتے ہیں کہ ہمیں رسول ﷺ نے قربانی کے جانوروں کے ناک کان دیکھنے کا حکم دیا اور اندھا، آگے پیچھے سے ، لمبائی و گولائی کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی کرنے سے منع فرمایا ( ابو داؤد ، الاضاحی ) ان دونوں حدیثوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر معمولی قسم کا عیب ہو تو کوئی حرج نہیں ۔

قربانی کا جانور فربہ و موٹا ، لحیم و شحیم اور قیمتی ہونا چاہئے ۔ اس لئے کہ حدیث رسول ہے کہ آپ نے دو موٹے مینڈھے ذبح کئے ۔ (متفق علیہ) اور حضرت ابو امامہ کا بیان ہے کہ ’’ کنا نسمن الاضحیۃ بالمدینۃ و کان المسلمون یسمنون‘‘(صحیح البخاری ، الاضاحی تعلیقاً) کہ ہم مدینے میں قربانی کے جانور کھلا پلا کر موٹا کرتے تھے اور سارے مسلمان ایسا ہی کرتے تھے ۔ 

قربانی کا جانور سینگ والا ہو تو افضل ہے ، اس لئے کہ اللہ کے رسول ﷺ معتدل سینگ والے دو مینڈھے ذبح کرتے تھے ۔ حضرت انس کہتے ہیں ’’ ان النبی ﷺ کان یضحی بکبشین أملحین اقرنین ‘‘ (مفق علیہ) اگر پیدائشی سینگ نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ۔

قربانی کا جانور خصی کیا ہوا ہو تو افضل ہے ۔ اس لئے کہ نبی ﷺ نے خصی کیا ہوا سینگ والا دو مینڈھا ذبح کیا ۔ (ابوداؤد ،الاضاحی) اور اگر خصی کیا ہوا نہ ہو تو بھی کوئی حرج نہیں لیکن چونکہ خصی کرنے کے بعد گوشت پوست میں بدبو نہیں رہتی اور وہ چست درست نفیس رہتا ہے اس لئے اس کی قربانی بہتر ہوگی۔ 

قربانی کے جانور کا مسنہ ( دانتا ہوا) ہونا لازمی شرط ہے ۔ بغیر دانتے ہوئے کی قربانی نہیں ہو سکتی ۔ حضرت جابر کہتے ہیں ، آپ نے فرمایا ’’ لا تذبحوا الا مسنۃ الا أن یعسر علیکم فتذبحوا جذعۃ من الضأن ‘‘(صحیح مسلم ، الاضاحی ) یعنی تم مسنہ ہی قربانی کرو اگر نہ ملے تو بھیڑ کا ایک سالہ بچہ قربان کرو (جو خوب موٹا تازہ ہو) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بغیر دانتا ہوا صرف بھیڑ کی قربانی ہو سکتی ہے ۔ باقی گائے ، بکری ،اونٹ کے لئے دانتا ہوا شرط ہے ، اگر کوئی غیر مسنہ ذبح کردے تو اس کی قربانی نہیں ہوگی ۔ ایک دفعہ ابو بردہ نے نماز عید سے پہلے قربانی کر دی جب آپ کو معلوم ہوا تو دوسری قربانی کرنے کے لئے کہا : حضرت ابو بردہ نے کہا کہ میرے پاس بکری کا ایک سالہ بچہ ہے جو فربہ ہے اور مسنہ سے بہتر ہے تو آپ نے اجاذت دے دی اور فرمایا ’’ لن تجزی عن احد بعدک ‘‘  (متفق علیہ) تمہارے بعد کسی کے لئے یہ درست نہیں ۔ غیر مسنہ کی قربانی کو درست ماننے میں بہت سی خرابیاں ہیں مثلاً اگر بکری کو ایک سالہ معتبر مانیں گے تو گائے و اونٹ کو کئی سالہ مانیں گے ؟؟ اس کے علاوہ اور بہت سے مفاسد ہیں اس لئے شریعت نے مسنہ کی جو تحدید کی ہے اسی کو قطعی مانا جائے ۔ 

پورے گھر کی طرف سے ایک جانور (بکرا) کی قربانی کافی ہوگی ۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے ، آپ ﷺ نے کالے پیر و کالے سینے اور سینگ والے خوبصورت مینڈھے کو ذبح کیا ۔ (صحیح مسلم ، الاضاحی) اور حضرت ابو ایوب کا بیان ہے کہ عہد رسالت میں پورے گھر کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتے ۔ اس کا گوشت کھاتے اور کھلاتے ۔ (سنن ترمذی ، الاضاحی ، امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے ) ایک سے زائد قربانی کرنے کی صلاحیت ہو تو کر سکتا ہے ۔ آپ ﷺ سے اس کا ثبوت ملتا ہے بلکہ اولی و افضل یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ قربانی کرے ۔ حضرت انس کہتے ہیں ’’ کان النبی ﷺ یضحی بکبشین و انا أضحی بکبشین ‘‘ (متفق علیہ)۔

قربانی میں مشارکت :  قربانی کا جانور ، گائے ، بیل ، اونٹ اونٹنی کی شکل میں ہو تو اس میں مشارکت جائز ہے ، اگر گائے ہو تو اس میں سات افراد شریک ہوں گے اور اگر اونٹ ہو تو دس آدمی شریک ہوں گے ۔ حضرت ابن عباس کہتے ہیں ’’ کنا مع النبی ﷺ فی سفر فحضروا لا ضحی فاشترکنا فی البقرۃ سبعۃ و فی الجزور عشرۃ ‘‘  (ترمذی ، الاضاحی ) یعنی ہم لوگ سفر میں تھے ، جب قربانی کا وقت آیا تو ہم لوگ گائے میں سات اور اونٹ میں دس آدمی شریک ہو گئے ۔ صحیح مسلم میں اس کے خلاف جو روایت آتی ہے کہ حدیبیہ کے موقع سے گائے و اونٹ میں سات سات آدمی شریک ہوئے تو اس کو علماء و محققین نے ہدی پر محمول کیا ہے اور یہی راجح بھی ہے ۔ 

قربانی کے جانور میں عقیقہ کے نام پر حصہ لگانا درست نہیں کیونکہ کتب حدیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ 

قربانی کا وقت :  اس سلسلے میں نبی کریم کا واضح فرمان ہے ’’ من ذبح قبل الصلوۃ فلیذبح مکانھا ‘‘ اور ایک روایت میں ’’ فلیعد مکانھا ‘‘ (متفق علیہ) یعنی جو نماز سے پہلے قربانی کرے اسکو دوبارہ قربانی کرنی ہوگی ۔ اس طرح قربانی کے دن نماز کے بعد سب سے پہلا کام قربانی بتایا گیا ہے ۔ اس لئے اگر کوئی وقت سے پہلے قربانی کرے تو اس کی قربانی نہیں ہو گی ۔ ایک دفعہ حضرت ابو بردہ نے بال بچوں کے خاطر ایسا ہی کیا تو آپ نے فرمایا ’’ من ذبح قبل الصلوۃ فانما ذبح لنفسہ و من ذبح بعد الصلوۃ فقد تم نسکہ و اصحاب سنۃ المرسلین ‘‘ (متفق علیہ ) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ذی الحجہ کا چاند نکلنے کے بعد گوشت کھانے کیلئے دوسرے جانوروں کو ذبح کیا جا سکتا ہے ۔ 

قربانی کب سے کب تک : قربانی یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ سے لے کر ایام التشریق (۱۱،۱۲،۱۳)کی جا سکتی ہے ۔ حضرت علی نے یوم النحر گناتے ہوئے فرمایا ’’ یوم الاضحی و ثلاثۃ ایام بعدہ‘‘ (زاد المعاد : ۲؍ ۲۹۱) یعنی یوم النحر کے بعد تین دن تک قربانی کر سکتے ہیں ۔ اس کی تائید قرآن میں وارد ایام معلومات سے بھی ہوتی ہے ۔( دیکھئے : تفسیر ابن کثیر : ۳؍ ۲۹۰) اور مسند احمد کی ضعیف حدیث ’’ کل ایام التشریق ذبح ‘‘ سے بھی ہوتی ہے ۔ جس کی توثیق حافظ ابن حجر نے دار قطنی کی طرف نسبت کر کے کیا ہے ۔ ( دیکئے : فتح الباری : ۱۰ ؍ ۸) ۔ 

 قربانی کیسے کرے:  سب سے پہلے چھری کو خوب تیز کر لے تاکہ جانور کو تکلیف نہ ہو ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ فاذا قتلتم فاحسنوا القتلہ واذا ذبحتم فاحسنوا الذبح ولیحد احدکم شفرتہ و لیرح ذبیحتہ ‘‘(صحیح مسلم ، الاضاحی ) جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو ، چھری خوب تیز کر کے جانور کو ذبح کرو تاکہ جانور کو تکلیف نہ ہو ۔ اس کے بعد اگر جانور گائے ، بکرا ہو تو آسانی و سہولت کیلئے بائیں پہلو پر لٹا دے اور داہنے ہاتھ میں چھری لے کر بائیں ہاتھ سے جانور کا سر پکڑے اور پیر جانور کے پہلو میں رکھ کر پورے اخلاص و للہیت کے ساتھ بسم اللہ و اللہ أکبر (متفق علیہ ) کہہ کر یا کوئی ثابت شدہ دعا پڑھ کر ذبح کر دے ۔ خود سے ذبح کرے تو اللھم تقبل منی ومن آل بیتی کہے اور دوسرے کیلئے کرے تو اللھم تقبل من فلاں بن فلاں کہے ۔

اگر ہو سکے تو خود سے ذبح کرے ۔ آپ ﷺ نے خود ہی ذبح کیا ’’ فذبحھا بیدہ‘‘( متفق علیہ ) اور اگر نہ ہو سکے تو کسی سے ذبح کروالے ۔ آپ ﷺ نے ازواج مطہرات کی قربانی دست مبارک سے ذبح کی ۔ 

عورتیں بھی ذبح کر سکتی ہیں ۔ ایک عورت نے پتھر سے بکری کو ذبح کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا         ’’ کلوھا ‘‘ (صحیح بخاری ، الذبائح ) اسی طرح حضرت ابو موسی اشعری نے اپنی بچیوں کو قربانی اپنے ہاتھ سے کرنے کا حکم دیا تھا ۔ ( صحیح بخاری ،الاضاحی معلقاً) حافظ ابن حجر نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے ۔ (الفتح : ۱۰ ؍ ۱۹) ۔

قربانی کے جانور کو کسی دھار دار تیز چیز مثلاً چھری ، چاقو وغیرہ سے ذبح کیا جائے گا ۔  دانت ، ناخن ، ہڈی سے ذبح کرنا جائز نہیں ۔ ارشاد نبوی ہے ’’ما النھر الدم و ذکر اسم اللہ فکل لیس السن و الظفر ‘‘ ( متفق علیہ ) یعنی ناخن ہڈی کے علاوہ جس خون بہہ جائے ذبح کرنا جائز ہے ، بشرطیکہ بسم اللہ کہا ہو۔


قربانی کا گوشت :  قربانی کا گوشت خود کھائے دوسروں کو کھلائے اور صدقہ کرے ۔ اللہ تعالی سورۂ حج میں فرمایا ’’ کلوا منھا و اطعموا البائس الفقیر ‘‘ اور فرمایا ’’ فاذا وجبت جنوبھا فکلوا منھا و اطعموا القانع المعتر ‘‘(الحج : ۳۶) جب (وہ) جانور پہلو کے بل گر جائیں تو ان کا گوشت کھاؤ اور نہ مانگنے والے اور مانگنے والے دونوں قسم کے فقیروں کو کھلاؤ ۔ معلوم ہوا قربانی کے گوشت خود کھائے ، رشتہ داروں ، فقرا و مساکین کو کھلائے اور صدقہ کرے ۔ اگر مکمل صدقہ کرے تو کر سکتا ہے ۔ اسی طرح اگر مکمل کھا جائے تو کھا سکتا ہے ۔ لیکن بہر حال بیچ نہیں سکتا اور نہ ہی قصاب کو بطور مزدوری گوشت دے سکتا ہے ۔ حضرت علی کا بیان ہے ’’ امرنی رسول اللہ ﷺ ان اقوم علی بدنہ وان اقسم لحومھا و جلودھا و جلالھا علی المساکین ولا أعطی فی جزارتھا منھا شیأ ‘‘(متفق علیہ ) یعنی مجھے رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے گوشت کی دیکھ ریکھ کرنے اور فقراء و مساکین میں تقسیم کرنے کا مکلف بنایا اور قصاب کو بطور مزدوری گوشت دینے سے منع فرمایا ۔ بعض علماء نے غریب قصاب کو دینے کی بات کہی ہے ۔ جہاں تک گوشت کو تین حصے میں تقسیم کرنے کی بات ہے تو اسلسلے میں کوئی نص صریح صحیح وارد نہیں ہے ۔ اس لئے شریعت کے اجمالی موقف کو بحال رکھا جائے ۔ اسی میں بھلائی ہے ۔ 





 قربانی کا گوشت کتنے دن کھایا جائے، اس سلسلے میں حضرت جابر کا بیان ہے کہ ہم لوگ تین دن سے زیادہ گوشت نہ کھاتے تھے تو آپ نے رخصت دی اور فرمایا ’’ کلو و ادخروا فاکلنا و تزودنا‘‘( متفق علیہ ) کھاؤ اور رکھو تو ہم نے کھایا اور توشہ بنا کے رکھا ۔ اس طرح حضرت سلمہ بن رکوع کی حدیث ہے ’’ کلوا و اطعموا و ادخروا‘‘ (متفق علیہ ) کھاؤ ، کھلاؤ اور رکھو ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شروع اسلام میں زیادہ دنوں یعنی تین دن سے زیادہ دنوں تک رکھنے کی ممانعت تھی لیکن بعد میں اس کی اجاذت دے دی ۔ اس طرح سابقہ حکم منسوخ ہو گیا ۔ 

چرم قربانی کو صدقہ کر دینا چاہئے یا اس کو بیچ کر اس کی قیمت فقراء و مساکین یا کسی اسلامی ادارے کے حوالے کر دینا چاہئے جہاں قوم کے نادار و غریب بچے زیور علم سے آراستہ و پیراستہ ہو رہے ہیں یا پھر اس کے چمڑے سے کچھ بنوانا چاہیں تو بنوا سکتے ہیں ۔

قربانی سے متعلق یہ چند بنیادی مسائل تھے جنہیں کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قربانی کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنی وسعت و صلاحیت کے مطابق زیادہ سے زیادہ قربانی کریں اور اخلاص کے ساتھ کریں ۔ اس لئے کہ ’’ لن ینال اللہ لحومھا و دماؤھا ولکن ینالہ التقوی منکم ‘‘(الحج : ۳۸) اللہ تعالی تک نہ قربانی کا گوشت پہنچے گا اور نہ خون ، صرف تمہارا تقوی اللہ تک پہنچے گا ۔ اللہ تعالی ہمارے اعمال میں اخلاص پیدا کرے ۔ آمین ۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے