Header Ads Widget

Responsive Advertisement

السابقون الاولون

تحریر : ڈاکٹر رحمت اللہ محمد موسی السلفی 

(چیرمین: مرکز الفرقان التعلیمی الخیری )

(حاجی پور، کٹیھار، بہار) 

 

الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الأمین وعلی آلہ وصحبہ أجمعین وبعد !

أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ، بسم اللہ الرحمن الر حیم : ’’السابقون الاولون من المھاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ وأعد لھم جنات تجری تحتھا الانھار خالدین فیھا أبدا ذلک الفوذ العظیم ‘‘(التوبۃ : ۱۰۰)۔

نبی آخر الزماں ﷺ کی بعثت ایک ایسے ماحول میں ہوئی جب ملک عرب شرک میں لت پت اور پوری انسانیت ظلم و عدوان ، الحاد کی چکی میں پس رہی تھی ، ہر چہار سو حرکتیں اور دلدوز واقعات رونما ہو رہے تھے ، ایسے ناگفتہ بہ حالات میں آپ کو نبی رحمت بنا کر بھیجا گیا اور رب العالمین کی طرف سے یہ حکم ہوا کہ آپ کے ذمہ جو اہم ترین ذمہ داری دی گئی ہے اسکو کما حقہ نبھائیں ،شرک کے خاتمہ اور توحید کے اثبات میں محنت و مشقت کریں اور اس راہ میں صبر و ثبات و استقامت برتیں ، آپ نے مشقت بھرا دعوت و اصلاح کا یہ کام اللہ پر بھروسہ کر کے شروع کیا ،اور سب سے پہلے ان لوگوں کو دعوت دی جو آپ سے آشنا تھے اور جنکو آپکی صداقت و حقانیت ، اور جلالت نفس پر پورا یقین تھا چنانچہ سب سے پہلے جن لوگوں نے آپ کو نبی تسلیم کیا اسلامی تاریخ میں سابقین اولین کے نام سے مشہور ہیں ، انمیں سب سے نمایاں حضرت خدیجہ ، حضرت ابو بکر ، حضرت ذید بن ثابت اور حضرت علی تھے جو پہلے ہی دن مسلمان ہو گئے تھے ( رحمت للعالمین ۱؍ ۵۰و الرحیق المختوم ص ۱۱۶) ۔

پھر حضرت ابو بکر کی دور اندیشی و حسن صحبت سے پانچ آدمی اور مسلمان ہوئے حضرت عثمان ، حضرت زبیر ، حضرت عبد الرحمن بن عوف ، حضرت سعد بن أبی وقاص اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ ، اسی طرح شروع میں جو اسلام لائے ان میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ، ارقم بن أبی الارقم ، عثمان بن مظعون ، عبد اللہ بن مسود ، سعید بن زید ، فاطمہ بنت خطاب ، عمار بن یاسر ، سمیہ ، عامر بن مالک وغیرہ جنکی تعداد ابن ھشام کے مطابق چالیس سے زیادہ ہے ( دیکھئے سیرۃ ابن ھشام :۱؍ ۲۴۵-۲۶۲) لیکن استاد محترم شیخ صفی الرحمن مبارکپوری نے بعض کو سابقین میں شمار کرنے پر اعتراض کیا ہے ( دیکھئے الرحیق المختوم :۱۱۶) ۔ یہ تو رہی مکہ کی بات ، مکہ سے باہر یثرب میں جب حق کی آواز پہچی تو چھ نوجوان مشرف باسلام ہوئے جن میں اسعد بن زرارہ ، عوف بن حارث اور رافع بن مالک تھے ، پھر ان کی دعوت و کوشش کے نتیجے میں بارہ آدمی   ۱۲    ؁  نبوی میں گھاٹی میں آپ سے ملے اور مشرف باسلام ہوئے ، اور ان کے ساتھ آپ ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیر کو بحیثیت مبلغ و دای بھیجا انہوں نے اسعد بن زرارہ کو لیکر دعوتی کام شروع کیا چنانچہ ان کی کوشش سے حضرت سعد بن معاذ ، اسید بن حضیر وغیرہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے ، پھر ان کی کوششوں کے نتیجے میں  ۱۳    ؁ نبوی میں یثرب کے ستر آدمی نبی کریم ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرنے عقبہ میں حاضر ہوئے ، اس بیعت کو تاریخ میں بیعت عقبہ ثانیہ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ 

ان دونوں قسم کے مسلمانوں نے نبی کریم ﷺ کی حمایت و نصرت کی ، پہلے قسم یعنی مھاجرین نے دین کے خاطر رب کے حکم سے ہجرت کی ، مال و دولت اور گھر کو چھوڑا اور بے پناہ تکالیف برداشت کی ، اور دوسرے قسم یعنی انصار نے آپ ﷺ اور مہاجرین کو پناہ و نصرت دی اور سب کچھ ان کی خدمت و تواضع میں پیش کیا ، ان دونوں قسم کے لوگوں کو قرآن نے بہترین نام دیا ، وہ نام ہے ’’سابقین اولین ‘‘ جنکی فضیلت قرآن و حدیث میں منصوص طور پر وارد ہے ، لیکن ان کی فضیلت و منقبت کو بیان کرنے سے پہلے ان کی تعریف میں جڑی اختلاف کو بیان کر دیان مناسب سمجھتے ہیں ۔ 

کون مراد ہیں :  اس میں اختلاف ہے کہ سابقین اولین سے کون مراد ہیں ، ابو موسی اشعری ، ابن سیرین ، سعید بن المسیب اور حسن بصری کے خیال میں ان سے وہ مسلمان مراد ہیں جنہوں نے دونوں قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی یعنی تحویل قبلہ سے پہلے مسلمان ہونے والے مہاجرین و انصار (تفسیر ابن کثیر ۲؍ ۵۰۲)۔

لیکن شیخ الاسلام ابن تیمیہ ( مجموع الفتاوی : ۴؍ ۳۹۸) اور ابن ابی العز الحنفی ( شرح طحاویہ :۴۶۸) نے اس قول کو ضعیف قرار دیا ہےاور کہا کہ قبلہ منسوخہ کی طرف نماز پڑھنے کی فضیلت پر کوئی دلیل شرعی نہیں ۔ 

دوسرا قول امام شعبی کا ہے کہ ان سے وہ صحابہ مراد ہیں جو حدیبیہ میں بیعت رضوان میں شریک تھے ( تفسیر ابن کثیر ۲؍ ۵۰۲) علامہ ابن أبی العز الحنفی نے اس قول کو راجح قرار دیا ہے ( دیکھئے شرح طحاویہ :ص ۴۶۸) ۔

تیسرا قول یہ ہے کہ ان سے مراد بدری صحابہ ہیں ۔

امام شوکانی فرماتے ہیں کہ ان سے مراد سارے ہو سکتے ہیں ( تفسیر أحسن البیان : ص ۵۴۵)۔ 

سابقین اولین کی فضیلت قرآن و حدیث کی روشنی میں :- 

مہاجرین و انصار مین جو سابقین اولین تھے ان کی فضیلت و منقبت قآن و حدیث میں بہت وارد ہے ارشاد باری تعالی ہے : ’’ السابقون الاولون من المھاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ وأعد لھم جنات تجری تحتھا الانھار خالدین فیھا أبدا ذلک الفوذ العظیم ‘‘(التوبۃ : ۱۰۰) ’’ اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں ، اللہ ان سب سے راضی ہوا ، اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے ، یہ بڑی کامیابی ہے ‘‘۔

اور فرمایا : ’’ والذین آمنوا وھاجروا وجاھدوا فی سبیل اللہ والذین اووا و نصروا اولئک ھم المؤمنون حقاً لھم مغفرۃ و رزق کریم‘‘(الانفال : ۷۴) ’’ جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد پہچائی ، یہی لوگ سچے مومن ہیں ، ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی ‘‘۔

اور فرمایا : ’’لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ‘‘(الفتح : ۱۸) ’’ یقیناً اللہ تعالی مومنوں سے خوش ہو گیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کر لیا ، اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی ‘‘ ۔

اور فرمایا : ’’ لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ ؕ اُولٰٓئِكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْا ؕ وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰی ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠‘‘ (الحدید : ۱۰) ’’ تم میں جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے ، وہ دوسروں کے برابر نہیں ، بلکہ ان سے بہت بڑے درجے کے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کئے ،ہاں بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالی کا ان سب سے ہے ، کو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے ‘‘۔ 

نبی کریم ﷺ نے خلفاء راشدین کی فضیلت میں بیان فرمایا :’’فعليكم بِسُنَّتِي وسُنَّةِ الخلفاءِ الراشدينَ المهديينَ، عَضُّوا عليها بالنَّواجذِ‘‘( مسند احمد ۴؍ ۱۲۶ و صححہ الالبانی تعلیق المشکاۃ :۱؍ ۱۵۸)۔

اور عشرہ مبشرہ کو جنت کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا : ’’ أبو بكر في الجنة، وعمر في الجنة، وعلي في الجنة، وعثمان في الجنة، وطلحة في الجنة، والزبير في الجنة، وعبد الرحمن بن عوف في الجنة، وسعد بن أبي وقاص في الجنة، وسعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل في الجنة، وأبو عبيدة بن الجراح في الجنة ‘‘( مسند احمد : ۱؍ ۱۹۳ و سنن ترمذی رقم: ۴۰۱۲،صحیح ترمذی رقم :۳۹۴۶)

بدری صحابہ کے بارے میں فرمایا : ’’ مَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَكُونَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ‘‘ ( صحیح بخاری :۳۰۰۷ و صحیح مسلم :۲۴۹۴)۔

اور بیعت الرضوان میں شریک صحابہ کی فضیلت میں فرمایا : ’’لا يدخل النار، إن شاء الله، من أصحاب الشجرة أحد، الذين بايعوا تحتها‘‘ (صحیح مسلم :۲۴۹۴) ۔ 

اور مہاجرین و انصار کے بارے میں فرمایا : ’’الأنصار شعار والناس دثار، ولو أن الناس استقبلوا وادياً أو شعباً واستقبلت الأنصار وادياً لسلكت وادي الأنصار، ولولا الهجرة لكنت امرأ من الأنصار‘‘ ( صحیح بخاری : ۴۳۳ و صحیح مسلم : ۱۰۵۹) ۔

سابقین اولین اہل سنت و الجماعت کی نظر میں : -

بالعموم تمام صحابہ کرام اور بالخصوص سابقین اولین مہاجرین و انصار کے بارے میں اہل سنت و الجماعت کا نظریہ ہے کہ سب کے سب عادل تھے اور ان کو اس امت میں سب سے اونچا و ارفع مقام حاصل ہے ان تمام صحابہ کرام سے محبت کرنی چاہئے ان کی عیب چینی نہیں کرنی چاہئے اور ان کے تعلق سے دلوں میں کسی طرح کا بغض و کینہ رکھنا درست نہیں ( العقیدۃ الواسطیۃ مع شرحہا :ص ۱۱۱)۔ 

امام طحاوی فرماتے ہیں :  ہم تمام صحابہ سے محبت کرتے ہیں روافض کی طرح بعض صحابہ کی تعریف میں غلو نہیں کرتے اور بعض کی تنفیص نہیں کرتے اور ناصبیہ کی طرح اہل بیت کو سب و ستم نہیں کرتے ،ہم تمام کا ذکر خیر کرتے ہیں ( العقیدۃ الطحاویۃ مع شرحہا : ص ۴۶۷) ۔ 

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں :  مہاجرین کو انصار پر فضیلت حاصل ہے اس لیے کہ انہوں نے ہجرت و نصرت دونوں کی ،جبکہ انصار نے  صرف نصرت کی ،پھر مہاجرین میں سب سے افضل ابو بکر ، پھر عمر،پھرعثمان ،پھر علی پھر بقیہ عشرہ مبشرہ ،پھر بدری عقبی صاحبہ، پھر بیعت الرضوان میں شریک صحابہ کرام، خلافت میں بھی وہی تربیت ہے یعنی خلیفہ اول حضرت ابوبکر ،خلیفہ ثانی حضرت عمر ،خلیفہ ثالث حضرت عثمان، خلیفہ رابع حضرت علی ،ان حضرات کی خلافت میں میں طعن و تشنیع کرنے والا گمراہ و بدعتی ہے ۔کیونکہ تمام خلفاء راشدین کی خلافت پر امت کا اتفاق ہو گیا تھا (العقیدۃ الواسطیہ مع شرحہا : ۱۱۲- ۱۱۴) ۔

حافظ ابن کثیر رقمطراز ہیں :   سابقین اولین مہاجرین و انصار کی فضیلت میں اللہ تعالی نے اپنی رضامندی ظاہر کی اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ لوگ ان سے بغض رکھتے ہیں یا گالی دیتے ہیں یا بعض سے بغض رکھتے ہیں یا گالیاں دیتے ہیں ان کے لیے تباہی و ویل ہے بالخصوص سید الصحابہ اور نبی کے بعد افضل ترین انسان خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق کو گالی دینے والے کے لئے ویل ہے ،روافض سید صحابہ کو گالی دیتے ہیں یہ ان کی عقلی کوتاہی و ایمانی کمزوری کی دلیل ہے ،قرآن جن کو رضامندی کی سرٹیفکیٹ دے رہا ہے وہ ان کو گالیاں دیتے ہیں تو اس قرآن پر ان کا کیا ایمان ہو سکتا ہے؟؟اہل سنت  والجماعت تو ان سے رضامندی ظاہر کرتے ہیں جن سے قرآن رضامندی ظاہر کرتا ہے اورجن کو اللہ اور اس کے رسول پربرا کہیں وہ بھی ان کو سب و ستم کرتے ہیں وہ قرآن کی اتباع کرنے والے ہیں ،اپنی جانب سے کوئی عقیدہ و فکرگڑھتے نہیں ( تفسیر ابن کثیر ۲؍۵۰۳)۔

صاحب أحسن البیان فرماتے ہیں :  اللہ نے ان کی نیکیاں قبول فرما لیں ، ان کی بشری لغزشوں کو معاف کر دیا اور وہ ان پر ناراض نہیں ، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کے لئے جنت اور جنت کی نعمتوں کی بشارت کیوں دی جاتی جو اس آیت ’’ وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ المُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضُوا عَنهُ وَأَعَدَّ لَهُم جَنَّاتٍ تَجرِي تَحتَهَا الأَنهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً ذَلِكَ الفَوزُ العَظِيمُ‘‘میں دی گئی ہے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رضائے الہی وقتی اور عارضی نہیں بلکہ دائمی ہے ، اگر رسول اللہ ﷺ کے بعد صحابہ کرام کو مرتد ہو جانا تھا جیسا کہ ایک باطل ٹولے کا عقیدہ ہے تو اللہ تعالی انہیں جنت کی بشارت سے نہ نوازتا ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالی نے ان کی ساری لغزشیں معاف فرما دیں تو اب تنقیص و تنقید کے طور پر ان کی کوتاہیوں کا تذکرہ کرنا مسلمان کی شان کے لائق نہیں ، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کی محبت اور پیروی رضاء الہی کا ذریعہ ہے ، اور ان سے عداوت و بغض و عناد رضاء الہی سے محرومی کا باعث ہے ( أحسن البیان : ۵۶۴)۔

سابقین اولین صحابہ کرام کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے یہ بات و اشگاف ہو جاتی ہے کہ وہ اس امت کے سب سے اچھے ، دل کے پاک ، رب کے وفادار اور انسانیت کے علمبردار تھے ، اور وہ آپ ﷺ کی محبت میں جاں نثار تھے اسلئے ان سے محبت کرنی چاہئے ان کی تربیت تو نبی رحمت نے کی تھی اسلئے عملی و اخلاقی اعتبار سے ان کے اندر کوئی کمی نہیں تھی ، لیکن اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ ان کے اندر کمی تھی تو ان کی تنقیص نبی رحمت کی تنقیص ہوگی اور نبی رحمت کی تنقیص رب العالمین کی تنقیص ہوگی ، کیونکہ اب العالمین نے آپ کو یہ ذمہ داری دی تھی کہ ان کی تربیت کریں ، اگر اسمیں کوئی کمی رہ گئی ہے تو رب کے حکم کی تعمیل میں کمی رہ گئی ہے - نعوذباللہ -اسلئے عافیت اسی میں ہے کہ سابقین اولین صحابہ کرام کو برا نہ کہیں ان کو گالیاں نہ دیں ، ان کی تعظیم اور ان سے محبت کریں ، اور یہ یقین کریں کہ ہمارے دین کی سلامتی ان کی صداقت و امانت اور عدالت مین ہے ۔بس۔ 

سابقین اولین روافض کے نشانہ پر : - 

لیکن برا ہو ہو س پرستی و انانیت کا کہ مسلمانوں میں بعض ان کی تنقیص وتنقید میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا ان کے خلاف زبان طعن دراز کرتا ہے، انہیں گالیاں دیتا  ہے، ان کو منافق و فاسق بلکہ مرتد کہتا ہے ان کی کوتاہیوں کو ایک ایک کرکے اجاگر کرنے کی کوشش کرتا ہے ، ان کی خلافت کو غیر آئینی تصور کرتا ہے ، ان کے کارنامے کو خامیوں سے تعبیر کرتا ہے ، ان کو غاصب و ظالم گردانتا ہے اور ان پر لعنت کرتا ہے، اسلامی تاریخ میں یہ طبقہ روافض کے نام سے موسوم ہے جن کی بنیادی جڑیں عبداللہ بن سبا کی تحریک وہ فکر سے آبیار ہوئی، اس طبقہ کی تاریخ اسلام دشمنی سے بھری پڑی ہے انہوں نے جہاں قرآن پاک میں تحریف کی وہیں حدیثیں گڑھی اور خوب گڑھیں اتنی گڑھیں کہ صرف اہل بیت کی فضیلت میں تین لاکھ سے زیادہ حدیثں گڑھیں(دیکھئے الستۃ مکانتھا للسبعاعی :ص ۸۰) مزید دیکھئے ’’ حقیقت رافضیت‘‘ از ڈاکٹر محمد یوسف نگرامی۔

خلفاء ثلاثہ اور تشیع : -

سابقین اولین میں خلفاء راشدین نمایاں حیثیت کے مالک ہیں ان کی فضیلت قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ان کے ایمان و یقین کی شہادت رب العالمین نے دی ان کے دور خلافت میں اسلام کو فروغ حاصل ہوا ، ندیم غار حضرت ابو بکر صدیق کے زمانہ میں مرتدین و مانعین و زکاۃ اور مدعیان نبوت کا فتنہ فرو ہوا ، خلیفہ ثانی حضرت عمر کے زمانہ میں روم و ایران فتح ہوا ، عدل و انصاف کا بول بالا ہوا ، حضرت عثمان کے دور خلافت میں توحید کا پرچم دور دور تک پھیلا ، مختصر یہ کہ خلفاء ثلاثہ کی خلافت خلافت علی منہاج النبوۃ کی حقیقی تصویر تھی جیسا کہ حدیث رسول ﷺ ’’ الخلافۃ بعدی ثلاثون ‘‘ سنۃ ( ابوداؤد :رقم ۴۶۳۵، صحیح ، ظلال الجنۃ :ص ۵۲۲) اس کی غماز ہے ، لیکن روفض اور اہل تشیع ان کی تکفیر و تفسیق کر کے تبرابازی کرتے ہیں ، ان کے خیال میں خلفاء ثلاثہ نے غاصبانہ طور پر خلافت کی باگڈور سنبھالی تھی اور تمام صحابہ کرام نے اس ظالمانہ قبضہ میں یکے بعد دیگرے ان کا ساتھ دیا اسلئے سوائے چند کے سب مرتد ہوگئے ورنہ حضرت علی خلیفہ بلا فصل ہوتے جیسا کہ حدیث رسول ’’ اٴلا ترضیٰ اٴن تکون منّی بمنزلة ھارون من موسیٰ الّا اٴنّہ لا نبیّ بعدی‘‘( صحیح بخاری :۳۷۰۶ و صحیح مسلم :۲۴۰۴) دال ہے ، حالانکہ اس حدیث میں حضرت علی کے خلیفہ بننے کی بات نہیں ہے جیسا کہ قاضی عیاض اور امام نووی نے بیان کیا ہے ۔یہ سبائی لوگ جو حضرت علی کے خلافت کو ثابت کرنے کیلئے خلفاء ثلاثہ کی تکفیر کرتے ہیں خود حضرت علی کو برا بھلا کہتے ہیں کہ انہوں نے خاموشی اختیار کر کے ان کی معاونت کی - نعوذباللہ - پھر خلفاء ثلاثہ کیا خلفاء اربعہ ان کی زبان درازی و دشنام ترازی کے شکار ہوئے ، حضرت ابو بکر کی خلافت منصوص طور پر ثابت ہوئی ، اور تمام تاریخی اور سیرت کی کتابیں اس بات پر متفق ہیں کہ مدینہ کے تمام مسلمانوں نے باہمی صلاح و مشورے کرنے کے بعد اسلام اور اسلامی معاشر کے مفاد کے پیش نظر متفقہ طور پر حضرت ابو بکر کو اپنا خلیفہ منتخب کیا تھا ( حقیقت رافضیت : ص ۷۹) اور حضرت عمر حضرت ابو بکر کی طرف سے نامزد خلیفہ تھے اور حضرت عثمان شورائی نظام کے تحت خلیفہ بنائے گئے تھے اور ان تینوں کی خلافت پر تمام صحابہ کا اجماع تھا ، اس بنیاد پر انہیں مطعون کرنا قطعا درست نہیں ، نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کو گالیاں دینے سے منع کرتے ہوئے فرمایا : ’’لا تسبوا أصحابي، فوالذي نفسي بيده لو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما أدرك مد أحدهم ولا نصيفه‘‘( صحیح بخاری : ۳۶۷۳ و صحیح مسلم : ۶۵۴۱) کہ’’ تم میرے صحابہ کرام کو گالیاں نہ دو ، قسم اس ذات کی جسکے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم سے کوئی أحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو اس کے مد یا نصف مف کے برابر نہیں پہونچ سکتے ‘‘ اور یہ معلوم ہے کہ حضرت خالد کو منع کیا تھا تھا جو حضرت عبد الرحمن بن عوف کو بر ا بھلا کہہ رہے ، پھر خلفاء ثلاثہ تو ان سے افضل ہیں ، ان کو گالیاں دینا کہاں کی منطق ہے ۔ چونکہ صحابہ کرام کو گالیاں دینا سبب لعنت ہے اسلئے آپ نے دو ٹوک انداز میں فرمایا :’’من سب أصحابي فعليه لعنة الله ولعنة اللاعنين والملائكة والناس أجمعين‘‘( تاریخ بغداد : ۱۴؍ ۲۴۱، حسن ، الصحیحۃ :رقم ،۲۳۴) ۔اس طرح کے واضح پھٹکار کے باوجود تشیع دور جدید میں نئے سج دھج کے ساتھ منصہ مشہود پر جلوہ افروز ہوا اور کہا اللہ تعالی نے سرور کائنات کو جس عظیم مقصد کے لئے مبعوث کیا تھا اسمیں آپ صرف ناکام ہی نہیں رہے بلکہ انتھائی درجہ کے نااہل ثابت ہوئے کہ آپ کی زندگی میں ایک لاکھ سے اوپر آدمیوں نے اسلام قبول کیا لیکن ان میں سے دس کو بھی صحیح ایمان نصیب نہ ہوا کیونکہ وہ سب ’’منافق ‘‘ تھے بالخصوص خلفاء ثلاثہ ابو بکر ، و عمر اور عثمان ایسے منافق تھے جو دنیاوی و سیاسی مصلحتوں کے تقاضے کے پیش نظر قرآن کریم میں بے تکلف اور ہر طرح کی تحریف کرتے رہتے تھے اور جونکہ صحابہ ان سے ڈرتے تھے اسلئے ان کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتے تھے ، یہ خیالات ظاہر کئے ، تفصیل دیکھئے ان کی کتاب ’’تحریر الوسیلہ : ۲؍ ۱۴۶ و الحکومۃ الاسلامیۃ :ص ۵۵ اور کشف الاسرار :ص ۱۱۴-۱۲۰ ) میں ۔

صحابہ کرام ( سابقین اولین ) سے متعلق روافض کے گستاخانہ رویہ کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ کا فیصلہ غلط ، جس کو رسالت کی ذمہ داری دی گئی وہ نااہل ، اور ان پر جو کتاب نازل ہوئی وہ غیر محفوظ اور لازما اس کتاب کی تشریح و تفسیر بھی غیر محفوظ ۔ 








ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے