تراویح ، فضیلت و اھمیت اور حقیقت
تحریر : ڈاکٹر رحمت اللہ محمد موسی السلفی
(چیرمین: مرکز الفرقان التعلیمی الخیری )
(حاجی پور، کٹیھار، بہار)
ماہ رمضان گو نا گوں خوبیوں اور بے پناہ برکتوں و عظمتوں کا مہینہ ہے ، اسی مہینہ میں قرآن مقدس کا نزول ہوا ، اسی مہینہ میں شب قدر ہے جس کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے ۔ اسی مہینہ میں جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں ۔ اسی مہینہ میں آپ ﷺ بکثرت ذکر و اذکار ، عبادت و ریاضت اور تلات کلام پاک میں مشغول رہتے تھے یہ وہ مہینہ ہے جسکی نفلی عبادت فرض کے برابر قرار پائی ۔ ان نفلی عبادات میں ایک تراویح بھی ہے جس کا آپ نے خاصا اہتمام کیا اور امت کو ترغیب دی ۔ ذیل میں تراویح کی فضیلت و اہمیت اور حقیقت بیان کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
تراویح کا معنی و وجہ تسمیہ : حافظ ابن حجر (۸۵۲ھ) فرماتے ہیں کہ تراویح ترویحہ کی جمع ہے جس کے معنی ایک مرتبہ آرام کرنا جیسے ایک مرتبہ سلام کو تسلیمہ کہا جاتا ہے ، اور رمضان میں تراویح کی باجماعت نماز کو تراویح اس لئے کہا جاتا ہے کہ شروع میں صحابہ کرام جب نماز پڑھتے تھے تو ہر دو سلام کے درمیان آرام کرتے تھے امام محمد بن نصر مروذی نے قیام اللیل میں لیث بن سعد سے یہ قول نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام اتنی دیر تک آرام کرتے تھے کہ آدمی بآسانی ایک دو رکعت پڑھ لے (فتح الباری : ۴؍ ۲۵۰) ۔
تراویح کی مشروعیت و حکم : قرآن کریم و حدیث رسول ﷺ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تراویح کی نماز شریعت اسلامیہ میں مشروع ہے ارشاد باری تعالی ہے : ’’ یا ایھا المزمل قم اللیل الا قلیلا ‘‘ (المزمل :۲- ۱) اور ’’ ومن اللیل فتھجد بہ نافلۃ لک ‘‘ (الاسراء : ۷۹) جس نے ایمان و تصدیق کے بنا پر اجر و ثواب کی امید میں قیام رمضان کیا اسکے سابقہ گناہ بخش دئیے جائیں گے ‘‘ ( صحیح بخاری ، صلاۃ التراویح : ۴؍۲۵۰ و مسلم ، الصلاۃ: ۵؍۳۹ مع النووی) جہاں تک اسکے حکم کا معاملہ ہے تو یہ فرض ہے نہ واجب ، بلکہ سنت موکدہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی ﷺ نے تراویح کی نماز مسجد میں پڑھیں ، دوسرے لوگوں نے بھی باجماعت پڑھی ۔ پھر آپ کے ساتھ دوسری رات بہت سے لوگوں نے نماز پڑھی ، تیسری رات بھی آپ نے بہت سے لوگوں کے ساتھ باجماعت پڑھی ، چوتھی رات اتنے لوگ اکٹھے ہو گئے کہ مسجد تنگ ہوگئی ، لیکن آپ اس رات نماز کیلئے نکلے ہی نہیں بالکل فجر کی نماز کیلئے تشریف لائے نماز کے بعد آپ نے فرمایا : ’’ قد رایت الذی صنعتم فلم یمنعنی من الخروج الیکم الا أنی خشیت أن تقرض علیکم ‘‘ ’’میں نے تمہاری آمادگی و دلچسپی کو دیکھا ، لیکن کمرے سے اس لئے نہیں نکلا کہ کہیں تراویح کی نماز تم پر فرض نہ ہو جائے پھر تم اسکو ادا نہ کر سکو ‘‘ (صحیح بخاری ، صلاۃ التہجد : ۳؍ ۱۰ مع الفتح و صحیح مسلم ، المساجد : ۶ ؍ ۴۱ مع النووی ) ۔
حضرت ابو ھریرہؓ کی روایت ہے : ’’ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یرغب فی قیام رمضان من غیر أن یأمرھم فیہ بعزیمۃ ‘‘ آپ ﷺ قیام رمضان کی ترغیب دیتے تھے ، لیکن واجبی طور پر نہیں کہتے تھے بلکہ ندب و ترغیب کے طور پر فماتے تھے ‘‘ ( صحیح مسلم، المساجد : ۶؍۴۰ مع النووی) حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا بیان ہے : ’’ فصار قیام اللیل تطوعا بعد فریضۃ ‘‘ ’’قیام اللیل فرضیت کے بعد مندوب ہو گئی ‘‘ ۔ (صحیح مسلم ، الصلاۃ ۶؍ ۲۶ مع النووی )۔
تراویح کی فضیلت : تراویح کی فضیلت متعدد احدیث میں وارد ہے ، امام بخاری ( ۲۵۶ھ) نے ’’باب فضل من قام رمضان ‘‘ کے تحت چھ حدیثیں نقل کی ہیں اس طرح امام مسلم (۲۶۱ھ) نے بھی متعدد حدیثیں نقل کی ہیں ۔ قیام اللیل کے نام سے مستقل کتاب امام محمد بن نصر مروری نے لکھی ہے جس میں متعدد احادیث کو جمع کیا ہے ان احادیث میں سے چند بطور نمونہ نقل کرتے ہیں :-
حضرت ابو ہریرہ ؓ کی مشہور حدیث : ’’ من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ ‘‘ ( حوالہ گزر گیا )۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : ’’ ما کان یزید فی رمضان و لا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ یصلی اربعا فلا تسأل عن حسنھن و طولھن ثم یصلی أربعا فلا تسأل عن حسنھن و طولھن ثم یصلی ثلاثا ‘‘ آپ ﷺ رمضان وغیرہ رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے تم ان کو حسن و طول کے بارے میں نہ پوچھو ، پھر چار پڑھتے تھے ان کے حسن و طول کا کیا کہنا پھر تین رکعت وتر پڑھتے تھے ۔ (صحیح بخاری صلاۃ التراویح : ۴؍ ۲۵۱ مع الفتح و صحیح مسلم صلاۃ المسافرین : ۶؍ ۱۷ مع النووی ) ۔
حضرت ابو ذر ؓ کی حدیث ہے قیام اللیل امام کی اقتداء میں کیا جائے تو پوری رات کے قیام کا ثواب ملتا ہے ( مصنف ابن ابی شیبہ : ۲؍ ۹۰؍ ۲ سندہ صحیح صلاۃ التراویح : ۱۵) ۔
تراویح کی فضیلت ہی تھی کہ آپ ﷺ خود جاگتے تھے اور دوسروں کو جگاتے تھے جیسے حضرت علی ؓ و فاطمہ ؓ کو جگایا تھا (صحیح بخاری ،التہجد: ۳؍۱۰ مع الفتح )
تراویح کی اہمیت : سابقہ سطور میں تراویح کی جو فضیلت بیان کی گئی ہے اور قیام اللیل کے سلسلے میں جو دیگر حدیثیں وارد ہیں ان سے تراویح کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، فی نفسہ سنن و نفلی عبادت کی مذہب اسلام میں کافی اہمیت ہے صرف سنن رواتب کے بارے میں ہے کہ جو دن رات میں ۱۲ ؍ رکعتیں سنت پڑھے اس کے لئے جنت میں ایک گھر تیار ہوگا (صحیح مسلم ، المساجد : ۶ ؍۶ مو النووی ) ۔ اسکے علاوہ تحیۃ المسجد اور مغرب سے پہلے دو رکعت ، سفر سے آنے پر دو رکعت کی کافی فضیلت و اہمیت ہے ۔ نفلی عبادات مطلقا محبت الہی کا ذریعہ ہیں حدیث قدسی ہے : ’’ ما تقرب الی عبدی بشئ أحب الی مما افترضتہ علیہ وما یزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی احبہ فاذا احببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ و بصرہ الذی یبصر بہ و یدہ الذی یبطش بہ و رجلہ الذی یمشی بھا ‘‘ ’’بندہ فرائض کی ادائیگی کرکے میری قربت حاصل کرے مجھے زیادہ محبوب ہے ، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ برابر میری قربت حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محب کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کا کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اسکی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پیر ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر مجھ سے وہ مانگتا ہے تو اسے دے دیتا ہوں ‘‘ ۔( صحیح بخاری ، الرقاق ۱۱ ؍ ۴۴ مع الفتح )
نوافل و مستحبات صرف محبت الہی کا ذریعہ ہی نہیں ، بلکہ وہ فرائض کی تکمیل کا ذریعہ ہیں جیسا کہ حدیث رسول ﷺ ہے : ’’ انظر و اھل لعبدی من تطوع فتکمل بہ فریضتہ ‘‘ (سنن نسائی ، الصلاۃ : ۱ ؍ ۱۸۸ ، صحیح ۔ دیکھئے الضعیفہ ۳؍ ۴۱۵)۔
معلوم یہ ہوا کہ شریعت اسلامیہ میں نوافل و سنن کی کافی فضیلت و اہمیت ہے اسی اہمیت کے پیش نظر نبی کریم ﷺ قیام اللیل کا زبردست اہتمام کرتے تھے اور اس حد تک کیا کرتے تھے کہ آپ کے قدم مبارک متورم ہوجاتے پھٹ جاتے (دیکھئے صحیح بخاری ، التہجد: ۳؍۴ مع الفتح ۔و صحیح مسلم ، صفۃ الجنۃ و النار :۱۷؍ ۱۶۲ مع النووی ) آپ کے اگلے پچھلے سارے گناہ بخش دئے گئے تھے تب اتنی زحمت و تکلیف اٹھاتے تھے جب لوگوں نے سوال کیا تو آپ نے فرمایا : ’’ أفلا أکون عبداً شکوراً ‘‘ ۔
معلوم ہوا فی نفسہ تراویح و قیام اللیل کی مذہب اسلام میں کافی اہمیت ہے اور اسکے مقاصد و فوائد عظیم و مہتمم بالشان ہیں یہ ان نوافل میں سے ہیں جن کو شعائر اسلام کا نام دیا گیا اور اسکے لئے جماعت مشروع کی گئی ۔
تراویح باجماعت مستحب ہے : علامہ ألبانی (۱۹۹۹ء) نے اپنی کتاب صلاۃ التراویح (۱۵-۹) میں تراویح باجماعت کے استحباب کو ثابت کرنے کیلئے متعدد حدیثیں نقل کی ہیں بعض حدیثیں ایسی ہے جن میں خود نبی کریم ﷺ کے باجماعت تراویح پڑھنے کا ذکر ہے ، اور بعض حدیثیں ایسی ہیں جن میں باجماعت ادا کرنے ادا کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور بعض حدیثیں ایسی ہیں جن میں باجماعت ادا کرنے والوں کی تائید و تقریر ہے ، ہم ان میں دو چند حدیثوں کو نقل کرتے ہیں ۔ حضرت عائشہ کی حدیث اس سے پہلے گزری ہے کہ آپ ﷺ نے نماز پڑھی ، آپ کی دیکھا دیکھی لوگوں نے جماعت کی پھر آپ نے جماعت کے تیسرے دن بھی جماعت کے ساتھ پڑھی ، لیکن چوتھے دن فرض ہونے کے خوف سے نہیں آئے ، امام بخاری نے صلاۃ النوافل جماعۃ کے باب میں حضرت عتبان بن مالک کی حدیث نقل کی ہے کہ آپ ﷺ ان کی درخواست پر ان کے گھر گئے اور حضرت ابو بکر ؓ کو بھی لے کر گئے اور انہیں باجماعت نماز پڑھائی ۔ ( دیکھئے صحیح بخاری ، التہجد : ۳؍ ۶۱ مع الفتح ) ۔
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ آپ رمضان میں نماز پڑھتے تھے ہم آکر آپ کے پہلو میں کھڑے ہوجاتے پھر دوسرا آتا ، پھر تیسرا آتا ، جب ہمارے بارے میں احساس ہو جاتا تو ہلکی نماز پڑھتے تھے پھر گھر جا کر نماز پڑھتے تھے ( مسند احمد ۳؍ ۱۹۹ ، سندہ صحیح ،صلاۃ التراویح :۱۰ )۔
حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ ہم نے آپ کے ساتھ رمضان کے تیسویں تاریخ ثلث لیل تک قیام کیا ،پھر ۲۵ ویں کو نصف لیل تک قیام کیا اور ۲۷ ویں کو دیر رات تک قیام کیا یہاں تک کہ لگا کہ سحری کا وقت نکل جائے ( مصنف ابن ابی شیبہ : ۲؍ ۹۰ ؍۲ و مستدرک حاکم ۱ ؍ ۴۴۰، صحیح ، صلاۃ التراویح :۱۰) ۔
شیخ البانی فرماتے ہیں کہ ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ تراویح باجماعت مشروع تھی ۔ جس رات آپ نے باجماعت تراویح ادا نہیں کی اس کی علت یہ تھی کہ کہیں فرض نہ ہوجائے ۔ اب چونکہ علت باقی نہیں رہی آپ کی وفات سے فرضیت کا اندیشہ ختم ہوگیا اس لئے تراویح باجماعت مشروع رہے گی اسی لئے تو حضرت عمر نے باقاعدہ جماعت کا اہتمام کرایا ۔ ( صلاۃ التراویح :۱۳) ۔
چنانچہ حضرت عبد الرحمن بن عبد القاری کا بیان ہے کہ ہم حضرت عمر کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی طرف نکلے ۔ دیکھا کہ لوگ منتشر ہو کر ٹولیوں میں نماز ادا کر رہے ہیں کوئی تنہا اور کوئی چند لوگوں کے ساتھ ، یہ دیکھ کر حضرت عمر نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ اگر ان لوگوں کو ایک قاری (امام) کی اقتداء میں نماز قائم کرنے کا حکم دیا جائے تو بہتر ہوگا چنانچہ آپ نے اس کا پختہ ارادہ کر لیا اور حضرت أبی بن کعب کو امام مقرر کر دیا ۔ دوسری رات جب ہم لوگ (معائنہ کیلئے) نکلے تو دیکھا کہ لوگ باجماعت نماز ادا کر رہے ہیں اسے دیکھ کر حضرت عمر نے فرمایا : ’’ نعمت البدعۃ ھذہ ‘‘ ’’ کیا ہی اچھی بدعت ہے ‘‘۔ (صحیح بخاری ، صلاۃ التراویح : ۴؍ ۲۵۰ مع الفتح ) یعنی نئے سرے سے باجماعت تراویح کی نماز پڑھنا بہتر و مستحب ہے اس لئے کہ جماعت کے ساتھ آپ ﷺ نے نماز پڑھی تھی ، لیکن بعد میں جماعت متروک ہو گئی یہاں تک کہ عمر نے دوبارہ جماعت سے نماز تروایح شروع کرائی ۔
معلوم ہوا کہ تراویح کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا بہتر و مستحب اور افضل ہے کیونکہ اس میں جماعت کی فضیلت حاصل ہو جاتی ہے ۔ بعض کم عقل و شریعت اسلامیہ سے نابلد اور اپنے آپ کو تیس مار خاں سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنے کے مقابلہ میں فرداً فرداً پڑھنا زیادہ بہتر ہے اس لئے کہ جماعت سے آپ ﷺ نے پہلے پڑھی ، بعد میں جماعت نہیں کی لھذا آخری حکم افضل ہوگا ۔ ہم سمجھتے ہیں یہ ان کی خام معلومات کا اثر ہے ورنہ وہ ایسی بات کہتے ہی نہیں اس لئے کہ جس علت کی بنا پر آپ نے جماعت نہیں کی تھی وہ علت اب مفقود ہوگئی ہے کہ کہیں فرض نہ ہوجائے اب جب کہ وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے آپ کی وفات ہو گئی ہے تو فرضیت کا کوئی اندیشہ بھی نہیں اسلئے پہلے کی طرح جماعت کے ساتھ پڑھنا افضل و مستحب ہوگا ۔
جماعت میں کون شریک ہوگا : تراویح کی نماز جب جماعت سے پڑھی جائے تو اس میں جوان ، بچے ، بوڑھے ، معذور ،غیر معذور ،مرد و عورت سب شریک ہو سکتے ہیں ۔ مردوں کی جماعت مسجد میں ہوگی اور ان کی اقتداء میں عورتیں بھی مسجد میں تراویح کی نماز پڑھ سکتی ہیں بشرطیکہ شریعت (حجاب وغیرہ ) کا خیال رکھا جائے حدیث رسول ﷺ ہے : ’’ لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ ‘‘ ’’تم عورتوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو ‘‘ (صحیح مسلم ، الصلاۃ:۴؍ ۱۶۱مع النووی ) اگر مردوں کی نماز الگ ہو اور عورتوں کی الگ ہو تو یہ بھی جائز ہے الگ الگ امام کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ابی بن کعب کو مردوں کیلئے اور تمیم داری اور سلیمان بن أبی حشمہ کو عورتوں کی امامت کیلئے امام مقرر کیا تھا ۔(فتح الباری : ۴؍ ۲۵۳)۔
تراویح کا افضل وقت کیا ہے : تروایح کا وقت بالاتفاق عشاء کے بعد سے شروع ہو کر فجر تک ہے آپ ﷺ عشاء کے بعد ہی تراویح کی نماز پڑھتے تھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا بیان ہے : ’’ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فیما بین أن یفرغ من صلاۃ العشاء وھی التی یدعو الناس العتمۃ الی الفجر احدی عشرۃ رکعۃ ‘‘ ’’ آپ ﷺ عشاء کے بعد سے فجر تک میں گیارہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے ‘‘ ۔ (صحیح مسلم ، صلاۃ المسافرین : ۶؍۱۶مع النووی ) ۔
افضل وقت کیا ہے ۔ اول شب یا آخر شب اس کے بارے میں اختلاف ہے حدیثوں میں آخر شب کی فضیلت زیادہ بیان کی گئی ہے نبی کریم ﷺ ابتدا رات کو سوتے تھے اور آخر شب کو قیام کرتے تھے ( صحیح بخاری ، التہجد : ۳؍ ۳۲ مع الفتح و صحیح مسلم ، صلاۃ المسافرین : ۶؍۲۲ مع النووی ) حضرت عمر ؓ نے فرمایا تھا ’’ والتی ینامون عنھا افضل من التی یقومون یرید آخر اللیل و کان الناس یقومون اولہ ‘‘ ’’ اول شب میں قیام کرنے کے مقابلہ میں آخر شب میں قیام کرنا افضل ہے ‘‘ (صحیح بخاری ، الصلاۃ التراویح : ۴؍ ۲۵۰ مع الفتح ) ایک اور حدیث میں ہے اللہ تعالی ہر رات آخری حصہ میں سماء دنیا پر نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے کون ہے جو مجھے پکارے میں اسکی پکار سنوں گا ، کون ہے جو مانگے میں اسے دوں گا ، کون ہے جو استغفار کرے میں مغفرت کروں گا ‘‘ ( صحیح بخاری ، التہجد : ۳؍ ۲۹ مع الفتح و صحیح مسلم ، المسافرین : ۶؍۳۶ مع النووی ) ۔
تراویح کی نماز چونکہ جماعت کے ساتھ پڑھنا مستحب و افضل ہے اور آخر شب میں لوگوں کا جماعت میں شریک ہونا مشکل امر ہے بالخصوص ہماہمی کے اس دور میں اور مشکل ہے لوگ محنت و مشقت کر کے تھکے رہتے ہیں سونے کے بعد جاگنا ان کیلئے مشکل ترین امر ہے اسلئے ان کی اور جماعت کی رعایت کرتے ہوئے تراویح کا افضل وقت اول شب ہوگا اسلئے کہ ایک حدیث میں ہے جو امام کے ساتھ قیام اللیل کرے اسے پوری رات کا ثواب ملتا ہے (سنن ابو داؤد : ۱؍۲۱۷، سند صحیح ، صلاۃ التراویح : ۱۵) اگر تمام مصلیان مسجد آخر شب میں جماعت کرنے پر متفق ہوجا ئیں تو سب سے افضل و اولی ہے ، یہ تو رہی جماعت کے ساتھ پڑھنے والوں کیلئے افضل وقت لیکن اگر کوئی تنہا پڑھتا ہے تو اسکے لئے آخر شب بہتر ہے اسکی طرف یہ حدیث اشارہ کر رہی ہے : ’’ان خیر صلاۃ المرأ فی بیتہ الا الصلاۃ المکتونۃ ‘‘ ( صلاۃ المسافرین : ۶ ؍۱۰ مع النووی ) ۔
تراویح کی نماز کیسے پڑھی جائے : ماہ رمضان افضل و حسین ترین مہینہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہر مومن اس مہینہ میں عمدہ طریقہ سے عمدہ کام کرے ، عمدہ قسم کی عبادت عمدگی و سلیقے سے انجام دے کر ذکر و اذکار ، تلاوت ، روزہ ، نماز ، زکوۃ الغرض ہر عمل صالح کو پورے اخلاص و للہیت کے ساتھ نبوی طریقے کے مطابق سر انجام دے ۔ قاری و امام کو چاہئے کہ بہترین قرأت و تجوید خوش الحانی و ترنم کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرے اور نبوی طریقے کے مطابق مکمل خشوع و خضوع اور اعتدال کے ساتھ طویل قیام و قرأت کر کے نماز پڑھائے کیونکہ فرمان نبوی ہے : ’’ صلوا کما رأیتمونی اصلی ‘‘ ’’ مجھے جیسے تم نماز پڑھتے دیکھتے ہو ویسے ہی نماز پڑھو ‘‘۔ ( صحیح بخاری ، الاذان : ۲؍ ۶۳۱ مع الفتح ) ۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ اتنی لمبی قرأت و قیام کے ساتھ عمدگی سے نماز پڑھتے اور چار چار پڑھتے تھے کہ ان کی خوبصورتی و طوالت کا کیا کہنا پورے اعتدال کے ساتھ نماز پڑھتے تھے ۔ (تخریج گزر گئی ) ۔
حضرت عمر ؓ نے تمیم داری اور أبی بن کعب کو ۱۱ ؍ رکعتیں تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا چنانچہ وہ سو آیات پڑھتے تھے اور صحابہ لاٹھی کے سہارے ٹیک لگائے رہتے تھے نماز اتنی لمبی ہوتی تھی کہ فجر کے وقت تک وہ نماز سے فارغ ہوتے ۔(مؤطا مالک : ۱ ؍ ۱۳۷ رقم : ۲۴۸ )۔
ہاں اگر جماعت میں بوڑھے کمزور بچے وغیرہ ہو تو ان کی رعایت کرتے ہوئے ہلکی نماز پڑھی جائے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ جب تم میں سے کوئی امامت کرے تو ہلکی نماز پڑھائے اس لئے کہ مقتدیوں میں کمزور ، بیمار ، بوڑھے اور ضرورت مند ہوتے ہیں ۔ ( صحیح بخاری : الآذان : ۲؍ ۱۹۹ مع الفتح ۔صحیح مسلم : الصلاۃ : ۴؍ ۱۵۸ مع النووی ) ۔
دو دو پڑھے یا چار چار : تراویح کی نماز پوری متانت و سنجیدگی ، اعتدال و خشوع کے ساتھ پڑھی جائے گی چاہے لمبی ہو یا مختصر ، لیکن سوال یہ ہے کہ کتنی کتنی رکعت پڑھی جائے اس سلسلے میں احدیث رسول ﷺ میں متعدد کیفیات کا ذکر ہے ان میں سے ایک دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرنے کی اور دوسری کیفیت چار چار رکعتیں پڑھ کر سلام پھیرنے کی ۔ دو دو رکعت کی دلیل حدیث رسول ﷺ : ’’ صلاۃ اللیل مثنی مثنی ‘‘ ( صحیح بخاری ، الوتر : ۲ ؍ ۴۷۷ مع الفتح ۔ وصحیح مسلم ، المسافرین : ۶؍ ۳۰ مع النووی ) اور چار چار رکعتیں پڑھ کر سلام پھیرنے کی دلیل حضرت عائشہ کی حدیث : ’’ یصلی اربعا فلا تسأل عن حسنھن و طولھن ‘‘ (تخریج گزر گئی ) دونوں صورت جائز ہے اسکے علاوہ بھی صورتیں ہے جیسے شیخ البانی نے اپنی کتاب صلاۃ التراویح میں نقل کیا ہے ، امت کے حق میں بہتر دو رکعت پڑھنا ہے ، کیونکہ اس میں آسانی ہے کہ ہر دو رکعت پر سلام پھیرے اور اس لئے کہ سائل کے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا : ’’ صلاۃ اللیل مثنی مثنی ‘‘ البتہ چار چار پڑھنا بھی درست ہے جیسا کہ حضرت عائشہ کی حدیث سے معلوم ہوا ۔
لمحہ فکریہ : نہایت افسوس کا مقام ہے کہ آج تراویح میں وہ سکون و اطمینان اور اعتدال و خشوع کا اعتبار ہی نہیں کیا جاتا نہ قرأت میں خشوع ہے نہ رکوع اور نہ سجود میں بالکل مرغ کی طرح چونچ مار کر زیر و بم کا مظاہرہ کیا جاتا ہے قرأت اتنی تیز کہ مکمل سورہ فاتحہ ایک سانس میں اور آیات کا معنی و مفہوم سمجھنا دشوار ہوتا ہے ۔ تراویح میں یہ تفریط ہے اور افراط یہ ہے کہ بعض قاری اتنی لمبی قرأت کرتے ہیں کہ مقتدیوں کے لئے پریشانی کا باعث ہوتے ہیں دونوں صورت میں تراویح کی روح ختم ہو جاتی ہے ، عبادت رسم کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ جس میں لوگوں کا ازدہام ہوتا ہے ، لیکن بے کیف و بے روح نماز ہوتی ہے لوگ چائے نوشی کرتے ہیں کچھ لوگ مسجد سے باہر گھومتے رہتے ہیں اور کوع میں امام سے جا ملتے ہیں ۔ ایسی صورت اس لئے پیش آتی ہے کہ ائمہ مساجد نماز میں طریقہ نبوی کا خیال نہیں کرتے ۔سنت سے انحراف کے نتیجے میں طرح طرح کی خرابی پیدا ہوتی ہے ۔
قراء و ائمہ کا حال یہ ہے کہ ایک رمضان میں تین تین چار چار ختم قرآن کرتے ہیں اسلئے ایسی رفتار سے قرأت کرتے ہیں کہ الامان ولحفیظ ایک مسجد سے فارغ ہو کر دوسری مسجد منتقل ہو جاتے ہیں پھر وہاں سے تیسری مسجد پھر چوتھی مسجد ، اس طرح خوب روپیہ کماتے ہیں اور عوام کو بیوقوف بناتے ہیں ۔ عوام بھی اتنی بے حس ہو گئی ہے کہ یعلمون تعلمون پڑھنے والے قاری کو ترجیح دیتی ہے ، کیونکہ جتنا جلد ختم ہوگا راحت ملے گی وہ سمجھتے ہیں رمضان میں تراویح مقصود نہیں ، ختم قرآن مقصود ہے سبحان اللہ کتنی غلط بات ہے جو مقصود تھا وہ غیر مقصود ہو گیا اور جو غیر مطلوب تھا وہ مطلوب ہو گیا ۔ اائمہ مساجد نے عبادت کو سودہ باذی کا ذریعہ بنا لیا ہے وہ قرأت قرآن پر اجرت طے کرتے ہیں اور موٹی رقم ہونے پر تیار ہوتے ہیں ۔ قرأت قرآن بطور تعلیم و تدریس ہو تو اجرأت متعین کرنا درست ہے ، لیکن تراویح میں فکس کرنا ہماری سمجھ سے بالا تر ہے اس لئے وہ تعلیم نہیں عبادت ہے ۔ تحفہ و ہدیہ اور نذرانہ کی شکل میں جتنا مصلیان دیدیں لے لینا چاہئے اس میں کوئی حرج نہیں ۔ لیکن بیشتر قراء ایسے نہیں کرتے اسی لئے ان کی نماز کی روح ختم ہو جاتی ہے اور لوگ ذوق شوق سے نماز نہیں پڑھتے ۔ ائمہ مساجد اور عام مصلیان کو یہ حقیقت سمجھنی ہوگی کہ تراویح کمائی کا ذریعہ نہیں اور تراویح میں قرآن ختم کرنا ضروری بھی نہیں کہ دونوں طرف بھاگ دوڑ شروع ہو جائے ۔ ائمہ زیادہ کمائی کیلئے اور مقتدیان راحت و آرام کیلئے ۔ تروایح میں قرآن ختم کرنا کسی حدیث ثابت نہیں اسلئے اسے افضل بھی نہیں کہا جا سکتا ۔ اگر ممکن ہو تو قرآن ختم کر لے ، لیکن اطمینان و سکون کے ساتھ ۔ تراویح میں پورا قرآن ختم نہ کر سکے تو جتنا ممکن ہو سکے پڑھے ختم کرنا ضروری نہیں ۔ یہی شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا موقف ہے ( دیکھئے الجواب الصحیح من احکام صلاۃ اللیل و التراویح :۱۱)۔
ہمیں امید ہے کہ قراء و ائمہ مساجد اور عام مصلیان اس نکتہ پر غور کریں گے اور اس بات کی کوشش کریں گے کہ رمضان ختم ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن بھی ختم ہو ۔
رکعات تراویح کی حقیقت : نماز تراویح کی فضیلت و اہمیت اور مشروعیت کے بارے میں پوری امت مسلمہ میں اتفاق پایا جاتا ہے عہد رسالت سے اب تک اس میں کوئی اختلاف نہیں ہوا ۔ لیکن یہی نماز کتنی پڑھی جائے گیارہ رکعت یا بیس رکعت یا چھتیس رکعت یا چالیس اس میں شدید اختلاف ہے ہمیں اس اختلاف سے مطلب بھی نہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ کا عمل ہمارے لئے نمونہ ہے اور صحابہ و تابعین کا عمل ہمارے لئے آئیڈیل ہے ۔ کتب حدیث و سیرت کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت آشکارہ ہوجاتی ہے کہ نبی کریم ﷺ رمضان و غیرہ رمضان میں وتر سمیت گیارہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے حضرت عائشہ سے آپ کی رات کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو کہا : ’’ ما کان رسول اللہ ﷺ یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ ‘‘ (صحیح بخاری ، صلاۃ التراویح : ۴؍ ۲۵۱ مع الفتح و صحیح مسلم ، المسافرین : ۶؍ ۱۷ مع النووی ) اور جس روایت میں تیرہ رکعت کا ذکر ہے تو اس میں فجر کی دو رکعت شامل ہے جیسا کہ حضرت عائشہ کی حدیث ہے : ’’ یصلی من اللیل ثلاث عشرۃ رکعۃ منھا الوتر و رکعتا الفجر ‘‘ (صحیح بخاری ، التہجد : ۳؍۲۰ مع الفتح و صحیح مسلم ، المسافرین : ۶؍۱۸ مع النووی ) ۔معلوم ہوا کہ صلاۃ تراویح آٹھ رکعت ہے اور وتر تین رکعت اس طرح کل ملا کر گیارہ رکعت ہوئی ۔
گیارہ رکعت سے زیادہ فعل رسول ﷺ سے ثابت نہیں ۔ صحابہ کرام بھی گیارہ رکعت ہی پڑھا کرتے تھے ۔ حضرت عمر ؓ نے أبی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعتیں پڑھانے کا حکم دیا تھا ( مؤطا مالک : ۱؍ ۱۳۷ رقم : شیخ البانی نے اس کی سند کو صحیح جدا کہا ، صلاۃ التراویح : ۴۵)۔
بیس رکعت کے بارے میں حضرت ابن عباس کی ایک حدیث آتی ہے کہ آپ رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے ( مصنف ابن أبی شیبہ : ۳؍۹۰؍ ۲ ) لیکن محققین و ناقدین حدیث کے یہاں یہ حدیث ضعیف ہے حافظ ابن حجر نے فتح الباری ( ۴؍۲۵۴) سیوطی نے ( ۹۰۲ھ) الحاوی للفتاوی (۲؍۷۳) اور علامہ البانی نے صلاۃ التراویح (۱۹) میں ضعیف جدا کہا ہے ، کیونکہ اس میں ابو شیبہ ابرہیم بن عثمان متروک ہے ، علامہ نذیر احمد رحمانی ( ۱۹۶۵ ء) نے انوار المصابیح ( ۱۵۰- ۱۴۸) میں ان علماء کرام کا نام گنایا ہے جنہوں نے اس کی تضعیف و تجریح کی ہے جیسے امام بیہقی (۴۵۸ء) زیلعی ، ابن الہام، عینی (۸۵۵ھ) عبد الحی لکھنوی ( ۱۳۰۴ھ) انور شاہ کشمیری (۱۳۵۲ھ) وغیرہم رحمہم اللہ ۔
حضرت ابن عباس کی حدیث اسلئے بھی درست نہیں کہ رات کے نماز کے بارے میں حضرت عائشہ سے زیادہ صحیح معلومات ابن عباس کو نہیں تھی اس بنا پر بھی ابن عباس ؓ کی حدیث حضرت عائشہ کی حدیث کے خلاف ہوگی ۔
حضرت عمر ؓ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ نے بیس رکعت کا حکم دیا تھا ، لیکن علماء محققین نے اسے غیر درست ہونے کی بنا پر رد کر دیا ہے جیسے امام شافعی ( ۲۰۴ ھ) مختصر المزنی ( ۱؍ ۹۱۰۷ ) نووی ( ۶۷۶ ھ) المجموع ( ۱؍۶۳) البانی نے صلاۃ التراویح ( ۶۰- ۴۸) میں اسے غلط قرار دیا ۔ کچھ لوگوں نے تطبیق دینے کی کوشش کی کہ پہلے گیارہ پھر بعد میں بیس کا حکم دیا تھا ، لیکن یہ تطبیق اس لئے درست نہیں ہے کہ بیس والی روایت ثابت نہیں ، دو ثابت شدہ متعارض روایتوں میں تطبیق دی جاتی ہے بس ۔
بیس رکعت تراویح پر اصرار اسلئے بھی غلط ہے کہ صحابہ کرام میں سے کسی سے بیس رکعت پڑھنے کا ثبوت کسی صحیح سند سے ثابت نہیں ۔ حضرت علی ، ابن مسعود ، أبی بن کعب کے بارے میں جتنے آثار ہے سب کے سب ضعیف ہیں تفصیل دیکئے انوار المصابیح ( ۲۵۸- ۲۴۵) اور صلاۃ التراویح ( ۷۱- ۶۶) میں ۔
بیس رکعت کے قائلین اجماع سے بھی دلیل پکڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس عدد پر اجماع اور استقرار عمل ہو گیا تھا اس لئے تراویح بیس ہی رکعت ہے ۔ سبحان اللہ ۔کتنا کھوکھلا دعوی ہے ، اولاً تو بیس رکعت پڑھنے کا ثبوت کسی سے نہیں ، ثانیاً متعدد آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلاف کرام گیارہ رکعتیں اور اس سے زیادہ پڑھا کرتے تھے پھر بیس پر اجماع کہا سے ہو گیا ؟؟ حافظ ابن حجر نے فتح الباری ( ۴؍ ۲۵۴- ۲۵۳) میں لکا ہے کہ مدینہ میں لوگ ۳۶ ؍ رکعتیں وتر کے علاوہ پڑھتے تھے ، امام شافعی کے حوالہ سے لکھا کہ مدینہ میں ۳۹ ؍ اور مکہ میں ۲۳؍ پڑھتے میں نے دیکھا ۔ امام ترمذی ( ۲۷۹ھ) فرماتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ ۴۱؍ رکعتیں پڑھائی جاتی تھی ۔ امام مالک سے ۴۲؍ رکعتیں مع ۳؍ رکعتیں وتر منقول ہے ۔ حضرت سائب بن یزید کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں ۱۳؍ رکعت پڑھتے تھے ۔ اتنے سارے آثار و اقوال کے ہوتے ہوئے بیس پر اجماع کا دعوی کرنا کہاں تک درست ہے ؟؟ علامہ نذیر احمد رحمانی ( انوار المصابیح : ۳۲۰- ۳۰۱) اور علامہ البانی ( صلاۃ التراویح : ۷۴- ۷۲) نے اجماع کی تردید پر متعدد دلائل پیش کئے ہیں خواہشمند حضرات رجوع کر سکتے ہیں ۔
گیارہ رکعت ہی سنت مؤکدہ ہے : معلوم ہوا کہ تراویح کی نماز صرف گیارہ رکعت ہی سنت مؤکدہ ہے جیسا کہ صحیح حدیثوں سے ثابت ہے یہی شیخ ابن باز ( الجواب الصحیح من احکام صلاۃ اللیل و التراویح : ۶- ۳) اور شیخ ابن عثیمین ( فصول فی الصیام و التراویح : ۱۸- ۱۷) کا موقف ہے ۔
گیارہ رکعت اور علماء احناف : محققین و منصفین علماء احناف بھی گیارہ رکعتوں کو سنت مؤکدہ مانتے ہیں چنانچہ علامہ عینی ( عمدۃ القاری : ۳؍۵۹۷) علامہ شوق نیموی (آثار السنن: ۲؍ ۵۱) علامہ عبد الحی لکھنوی ( مجموع فتاوی : ۱؍ ۳۵۴) اسی کے قائل ہیں ۔
اگر گیارہ رکعت سے زیادہ پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے بعض علماء جیسے البانی اسکے بھی مخالف ہیں ان کا کہنا ہے جن نوافل میں عدد کا ذکر نہیں ہے اس کی گنجائش ہے ، یہاں تو نص موجود ہے اس لئے گیارہ سے زیادہ نہیں پڑھ سکتا ہے ( صلاۃ التروایح : ۲۳- ۲۲) ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی گنجائش ہے جیسا کہ آثار سے معلوم ہوا ، لیکن گیارہ کے علاوہ کسی اور عدد کو سنت مؤکدہ کہنا درست نہیں ، البتہ سنت ( نفل ) مان کر جتنی پڑھنا چاہے پڑھ سکتا ہے کسی عدد پر اصرار غیر مناسب ہے ۔ کوئی اصرار کرے تو ہم خیر الھدی ھدی محمد سب سے بہتر طریقہ محمد کا طریقہ ہے ( صحیح مسلم ، الجمعہ : ۶؍۱۵۳ مع النووی ) اور ’’علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین ‘‘ (ترمذی ،العلم : ۵؍ ۴۴حسن صحیح ) کے مطابق گیارہ رکعت پڑھنے کی دعوت دیںگے اسلئے کہ رب ذوالجلال نے اختلاف کے وقت قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے : ’’ فان تنازعتم فی شئ فردوہ الی اللہ والرسول ‘‘(النساء : ۵۹) ’’ کہ تم جب اختلاف کرو تو مسائل کا حل کتاب و سنت سے نکالو ‘‘ اس لئے تراویح کی رکعات کے بارے میں اختلاف کو دور کرنے کی صورت صرف یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کا عمل دیکھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے ورنہ اگر عدد پر اصرار نہیں ہے تو جتنا چاہے پڑھ سکتا ہے چاہے بیس پڑھے یا اس سے زیادہ یا اس سے کم ، بہتر تو یہی ہے کہ سنت رسول پر عمل کرتے ہوئے گیارہ پڑھی جائے ۔
اللہ تعالی ہمیں ماہ رمضان میں خوب خوب عبادت کرنے کی توفیق دے اور تراویح کی نماز کو سنت رسول ﷺ کے مطابق ادا کرنے کی توفیق ارزانی کرے ۔ (آمین ) ۔
0 تبصرے