Header Ads Widget

Responsive Advertisement

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی شکلیں اور اسلام میں اس کا حکم

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی شکلیں اور اسلام میں اس کا حکم

تحریر: ڈاکٹر رحمت اللہ محمد موسی السلفی

                 (چیرمین : مرکز الفرقان التعلیمی الخیری ) 

(حاجی پور ، کٹیھار،بہار)         

اللہ رب العالمین کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باوقار و عظیم المرتبت شخصیت کے ذریعہ سسکتی و کراہتی انسانیت کو امن سکون ، راحت و اطمینان بخشا ، مظلوموں و بے کسوں کو عدل و انصاف ،یتیموں اور فقیروں کو عزت اور عورتوں کو احترام عطا کیا ۔ ایسی عدیم المثال شخصیت کے تعلق سے پوری انسانیت کی ذمہ داری تھی کہ ان کے مناقب و فضائل ، معجزات و شمائل کا اعتراف کرتی ۔ انکے اوامر و نواہی کی تصدیق کرتی ۔ ان کی سنتوں کی نشر و اشاعت کرتی اور ان کے خلاف اٹھنے والے پروپیگنڈے و شرانگیزیوں کا خاتمہ و دفاع کرتی کیونکہ اللہ تعالی نے اسی بات کی تاکید کی تھی ’’ انا أرسلناک شاھدا و مبشرا و نذیرا لتؤمنوا باللہ و رسولہ و تعزروہ و تؤقروہ وتسبحوہ بکرۃ و أصیلا ‘‘(سورۃ :فتح:٩)لیکن حیف صد حیف کہ ابتداء اسلام ہی سے دشمنان اسلام نے نور ھدایت کو بجھانے کے لئے طرح طرح کی سازشیں کیں ، سماجی بائیکاٹ سے لے کر ترک وطن کرنے پر مجبور کیا ، قتل کرنے کی ناپاک کوشش کی ، آپ کی ذات والا صفات میں طعن و تشنیع کی ، آج بھی دشمنان اسلام شمع اسلام کو گل کرنے کیلئے جی توڑ کوشش کر رہے ہیں ۔ آپ کی شان میں گستاخیاں کی جارہی ہیں ۔ آپ کی توقیر و تعظیم کی بجائے توہین آمیز کارٹون شائع کیا جارہا ہے ۔ ایسے مفسد مجرمین کے بارے میں ہمیں چوکنا رہنا ہوگا ، ان کی عیاری و مکاری کا دندان شکن جواب دینا ہوگا ، اس لئے آئیں دیکھیں مذہب اسلام کا ان گستاخان رسول کے بارے میں کیا موقف ہے ؟ لیکن سب سے پہلے سب (گستاخی ) کی تعریف اور اسکی شکلوں کو واضح کر دینا مناسب سمجھتے ہیں ۔

سب کی تعریف :  بقول شیخ الاسلام ابن تیمیہ کوئی ایسی بات جس سے کسی کی توہین و تقصیر اور استخفاف کی جائے ، اسے سب کہتے ہیں ۔ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول :۵۲۱)

اس کے مقابلہ میں تعزیز یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید و نصرت کی جائے اور ہر اس چیز سے آپ کی حفاظت کی جائے جس سے آپ کو تکلیف ہوتی ہے اور توقیر ایسی تعظیم کا نام ہے جس میں غلو و مبالغہ نہ ہو ۔ اللہ تعالی نے آپ کی تعزیز و توقیر کا حکم دیا اور سب سے منع کیا ۔ جو آپ کی توہین و تقیر کا باعث ہے ، سب (گستاخی ) کی بہت سی شکلیں ہو سکتی ہیں ۔ مثلا :-

گستاخی کی شکلیں :  (1 )  کوئی شخص آپ کی ذات بابرکات اور حسب و نسب میں طعن و تشنیع کرے ۔

(۲)  آپ کی عمدہ خصلتوں اور مکارم اخلاق کو مزموم صفات سے تعبیر کرے ۔ 

(3)  آپ کی لائی ہوئی شریعت ، اسلامی حدود ، عقاب و ثواب سے نفرت کرے یا اس کا مذاق اڑائے ۔

(4)  شریعت محمدیہ کے مقابلہ میں دنیاوی قوانین کو اکمل و ارفع سمجھے ۔

(5)  امہات المؤمنین بالخصوص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہجو کرے ۔

(6)  صحابہ کرام کی ہجو کرے اور ان کو گالیاں دے ۔

(7)  آپ کی سنتوں (حدیثوں ) کا مطلقا انکار کردے ۔ اس کے علاوہ اور بھی شکلیں ہو سکتی ہیں ۔ 

شاتم رسول کا حکم :قرآن کریم ،سنت نبویہ و آثار سلف اور اجماع و قیاس سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اہانت رسول کا مرتکب مستحق قتل ہے ۔ ایسے ناپاک و پلید قسم کے لوگوں سے اللہ کی زمین کو پاک کرنا نہایت ضروری ہے ۔ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ ایسے خبیث النفس شخص کو سماج و معاشرہ سے ختم کر دیا جائے تاکہ اس کے زہریلے اثرات و جراثیم سے کوئی متاثر نہ ہو ۔ آیئے سب سے پہلے قرآنی آیات کا جائزہ لیتے ہیں جن میں شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو واجب القتل قرار دیا گیا ہے ۔

ارشاد بانی ہے: ’’وان نکثوا أیمانھم من بعد عھدھم و طعنوا فی دینکم فقاتلوا أئمۃ الفکر انھم لا ایمان لھم لعلھم ینتھون ‘‘ (سورہ  توبۃ : ۱۲ )  اگر یہ لوگ عہد و پیمان کے بعد بھی اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم بھی  سرداران کفر سے بھڑ جاؤ ، ان کی قسمیں کوئی چیز نہیں ، ممکن ہے اس طرح وہ بھی باز آ جائیں ۔

اس آیت میں بدعہدی و عہد شکنی اور طعن فی الدین کو کفار و مشرکین سے جنگ کا باعث بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی کافر (اسلامی مملکت میں ذمی کی حیثیت سے رہنے والا ) بدعہدی کرے اور مذہب اسلام میں طعن و تشنیع کرے تو ان سے جنگ کرو ، نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی و توہین بھی طعن فی الدین ہے کیونکہ شریعت انہیں کے ذریعہ پہنچی تو اس ذات گرامی پر طعن و تشنیع درأصل دین میں طعن و تشنیع ہوا ، اس لئے ان سے جنگ کرو اور انکا خاتمہ کرو ۔

’’ان الذین یؤذون اللہ و رسولہ لعنھم اللہ فی الدنیا والآخرۃ و وأعد لھم عذابا مھینا‘‘( سورۂ احزاب : ۵۷)  جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء دیتے ہیں ، ان پر دنیا و آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کیلئے نہایت رسوا کن عذاب ہے ۔ اس آیت میں رسول پاک ﷺ کی تکذیب اور طعن و تشنیع کرنے والے کیلئے یہ وعید سنائی گئی کہ دنیا اور آخرت میں ان کے لئے لعنت ہے اور دردناک عذاب بھی ، ظاہر ہے لعنت باری تعالی کا مستحق انسان اللہ کی نگاہ میں مبغوض ترین انسان ہوگا ، اسی طرح عذاب الیم یا عذاب مہین کا مستحق وہی ہوگا جو مؤمن نہ ہوگا ، پھر جو آپ کی توہین کرتے ہیں وہ رحمت و جنت کے مستحق بالکل نہیں ہیں ۔  

’’انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الأرض فسادا أن یقتلوا أو یصلبوا أو تقطع أیدیھم و أرجلھم من خلاف أو ینفوا من الأرض ذلک لھم خزی فی الدنیا و لھم فی الآخرۃ عذاب وألیم ‘‘ (سورۂ مائدہ :۳۳)  جو اللہ تعالی سے اور اسکے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتا پھریں ، ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کر دئے جائیں یا سولی پر چڑھا دئے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤ کاٹ دئے جائیں یا انہیں جلاوطن کر دیا جائے یہ تو ہوئی ان کی دنیوی ذلت اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے ۔ اس آیت میں اللہ اور اسکے رسول سے محاربہ اور فساد فی الأرض کرنے والے کو چار طرح کی سزا کا مستحق بتایا گیا ہے ، جو توہین رسالت کرتا ہے ، آپ کی ذات و صفات میں نقص پیدا کرتا ہے وہ بدرجۂ اولی اس آیت کا مصداق ہوگا ، حاکم وقت ان چار سزاؤں میں سے جو مناسب سمجھے اس کا نفاذ کر سکتا ہے ۔ مذکورہ بالا آیت کے علاوہ اور بہت سی آیتیں ہیں ، جن سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنی معرکۃ الآرء کتاب میں استدلال کیا ہے ، خواہشمند حضرات اس کتاب کا مطالعہ کر کے شریعت کا موقف معلوم کر سکتے ہیں ۔

احادیث نبویہ :   شاتم رسول ﷺ کے قتل کے سلسے میں متعدد حدیثیں مروی ہیں جیسے آپ نے فرمایا ’’ من لکعب بن الاشرف فانہ قد أذی اللہ و رسولہ فقام محمد بن مسلمۃ فقال : أنا یا رسول اللہ ! أتحب أن أقتلہ قال نعم ‘‘( صحیح بخاری : ۷/۳۳۶ مع الفتح ، صحیح مسلم - الجہاد : ۱۲/۱۲۱ مع النووی)کون ہے جو کعب بن اشرف کا خاتمہ کر دے کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دی ہے ، محمد بن مسلمہ نے خواہش ظاہر کی تو آپ نے اسکو اجاذت دے دی ۔ چنانچہ وہ گئے اور حکمت کے ساتھ اس کا خاتمہ کر دیا ۔ کتب حدیث اور سیر کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کم بخت جنگ بدر کی شکست کے بعد بوکھلا کر مکہ گیا اور واپس آکر آپ کی اور امھات المؤمنین کی تشبیب و ہجو شروع کردی جس سے آپ کبیدۂ خاطر ہوئے اور اس کے قتل کی تمنا ظاہر کی ۔ 

سنن ابی دواؤد ،الحدود :۴/۵۲۸مع المعالم میں حضر ابن عباس سے ایک حدیث مروی ہے کہ ایک نابینا صحابی تھے ، ان کے ام ولد تھی جو آپ ﷺکو گالیاں دیا کرتی تھی ۔وہ اسے روکتے تو باز نہیں آتی ۔ ایک دن وہ گالی دینے لگی تو نابینا صحابی کو غیرت نے للکارا چنانچہ اٹھے اور پھاوڑے سے اس کا شکم چاک کر دیا ، پھر زور سے دبا کر ہلاک کردیا ، جب آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے اسکے خون کو رائیگا قرار دیا ۔ اس حدیث کی تخریج امام نسائی نے تحریم الدم : ۷/ ۹۹میں بھی کیا ہے ، حافظ ابن حجر نے اس کے رواۃ کو ثقہ کہا اور شیخ البانی نے صحیح کہا ۔ (صحیح سنن ابی داؤد : ۳/۸۲۴)

سنن ابی داؤد میں عامر شعبی حضرت علی سے مرسلا روایت کرتے ہیں کہ ایک یہودیہ آپ کو سب و شتم کرتی تھی جسے ایک آدمی نے گلا گھونٹ کر مار ڈالا تو آپ ﷺ نے اسکے خون کو رائیگا قرار دیا ۔ (دیکھئے : کتاب الحدود : ۴/۵۲۹ مع المعالم )شیخ البانی نے اس حدیث کی سند کو علی شرط الشیخین کہا ۔(الارواء :۵/ ۹۱) حافظ ابن تیمیہ نے کہا شعبی کے مراسل حجت ہیں ۔ (الصارم المسلول : ۶۱) 

ابو رافع سلام بن ابی الحقیق بہت بڑا یہودی تاجر تھا ۔ وہ اپنی دولت اسلام دشمنی میں صرف کرتا تھا اور آپ کو تکلیف پہنچاتا جس کی وجہ سے عبد اللہ بن عتیک کو آپ نے اسے ختم کرنے کیلئے مکلف کیا ، چنانچہ انہوں نے بڑی عقلمندی و حکمت سے اس کا خاتمہ کیا ۔ ( تفصیل دیکھئے : صحیح بخاری : المغازی : ۷/ ۳۴۱ مع الفتح میں )  

اسکے علاوہ آپ ﷺ نے خوارج کا قتل کرنے کا حکم دیا ۔ اساری بدر میں عقبہ بن ابی معیط اور نظر بن حارث تھے ، جنہیں بدتمیزی و اہانت رسول کی بنا پر راستہ ہی میں قتل کروایا ، ابن اخطل اور اسکے دو لونڈیوں کو جو آپ کی ہجو کیا کرتی تھی ، قتل کرنے کا حکم دیا تھا ۔ جسے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاتم رسول ﷺ مستحق قتل ہے ، صحابہ کرام بھی اسی قسم کا نظریہ رکھتے تھے ۔ 

آثار سلف :  حضرت عمر کا فرمان ہے ’’من سب اللہ أو سب احداً من الأنبیاء فاقتلوہ ‘‘ (الصارم المسلول :۲۰۹) جو اللہ تعالی اور انبیاء میں سے کسی کو سب و شتم کرے اسے قتل کردو ۔ 

حضرت ابن عباس کا موقف ہے ’’ أیما مسلم سب اللہ أو سب احدا من الأنبیاء فقد کذب علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھی ردۃ یستتاب منھا فان رجع منھا والا قتل ، وأیما معاھد عاند فیسب اللہ أو احد من الانبیاء لقد نقض العھد فاقتلوہ ‘‘ (نفس المصدر) یعنی اللہ تعالی اور انبیاء میں سے کسی کو گالی دینے والا مرتد ہے ، اسے توبہ کرایا جائے گا اگر توبہ کر لے تو ٹھیک ہے ورنہ قتل کر دیا جائے گا ۔ اسی طرح کوئی ذمی اہانت رسول کا مرتکب ہو تو اسے قتل کیا جائے گا ۔

حضرت علی کا بیان ہے ’’ من کذب علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم یضرب عنقہ ‘‘  (مصنف عبد الرزاق :۵؍ ۳۰۸) 

حضرت عمر بن عبد العزیز کو کسی نے گالی دی تو آپ نے فرمایا ’’لا تقتل الا من سب ّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ شاتم رسول ﷺ کو قتل کردیا جائےگا اور اسکی گردن اڑا دی جائے گی ۔ 

         مذکورہ بالا قرآنی آیات و احادیث اور آثار سلف کی روشنی میں علماء اسلام نے شاتم رسول کو بالاتفاق مستحق قتل قرار دیا ہے ۔ 

اقوال اائمہ :  چنانچہ امام مالک ، شافعی ، احمد ، لیث ، اسحاق بن راحویہ کے یہاں شاتم رسول مستحق قتل ہے ۔ امام ابو حنیفہ کے یہاں بھی مستحق قتل ہے لیکن اگر ذمی ہے تو اسے توبہ کی مہلت دی جائے گی ، امام شافعی نے اس سلسلے میں مسلمانوںکا اجماع نقل کیا ہے ۔ اسی طرح ابن المنذر نے بیان کیا ہے۔ ( تفصیل دیکھئے : الصارم المسلول : ۴-۳)  امام خطابی فرماتے ہیں کہ میرے علم کی حد تک کسی مسلمان نے شاتم رسول کے واجب القتل ہونے میں اختلاف نہیں کیا ۔ ( معلم السنن مع سنن ابی داؤد :۵؍۱۹۹) 

قیاس :  مذہب اسلام کا شاتم رسول ﷺکے بارے میں یہ دو ٹوک فیصلہ ہے کہ اسے قتل کردیا جائے ۔ عقل بھی یہی کہتی ہے کیونکہ رسول پاک ﷺ کی توہین صرف آپ کی توہین نہیں بلکہ رب کائنات کی توہین ہے ، مزید یہ کہ رب العالمین نے عصمت و عفت کا جو تمغہ آپ کو دیا ہے ، توہین ، سب و شتم سے وہ عصمت تار تار ہوجاتی ہے اس لئے رسالت مآب ﷺ پر ادنی درجہ کا طنز و تشنیع درست نہیں ، ہونا تو یہ چاہئے کہ لوگ آپ کی ہر ہر ادا پر لبیک کہیں اور ہر اشارہ پر اپنی جان کو قربان کردیں ۔ 

آج جبکہ مغربی دنیا اہانت رسول ﷺ کے عمل کو بڑے زور و شور سے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مشتہر کر رہی ہے اور شمع اسلام کو بجھانے کی ناپاک کوششیں صرف کر رہی ہیں ، ضرورت ہے کہ ہم متحد ہو جائیں اور ایسے پلید و ناپاک اشخاص کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کریں ۔ اگر اسلامی حکومت کے زیر اثر اس قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں تو مسلم حکمراں ان کو اہانت رسول کا مرتکب مان کر ختم کرے اور اگر اسلامی حکومت کے زیر اثر یہ لوگ نہیں آتے  بلکہ بیرونی دنیا سے ان کا تعلق ہے تو ان ممالک سے تجارتی ، صنعتی ، سیاسی تعلقات منقطع کر لیا جائے تاکہ اس قسم کے جرائم کا انسداد ہو سکے ۔ اللہ تعالی ہمیں اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے سچی محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور شاتم رسول کو کیفر کردار تک پہنچائے ۔ آمین


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے