Header Ads Widget

Responsive Advertisement

قیام امن کیلئے قومی یکجہتی کی ضرورت اور اہلحدیثوں کی مساعی

تحریر : ڈاکٹر رحمت اللہ محمد موسی السلفی 

(چیرمین: مرکز الفرقان التعلیمی الخیری )

(حاجی پور، کٹیھار، بہار) 

أمن انسانی زندگی میں : -

امن و امان اللہ رب العزت کی عظیم نعمت ہے جسے نوازتا ہیں وہ پر سکون و پر لطف زندگی گزارتاہے، انسان فطری طور پر امن کا خوگرو متلاشی پیدا ہوا ہے جسے حاصل کرنے کے لیے بڑی تگ و دو کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر اسکی زندگی میں امن و امان ہوگا تو جان و مال ، عزت و آبرو اور اہل و عیال سب  محفوظ رہیں گے اور زندگی کے تمام امور -عبادت ،ریاضت، معیشت، سیاست، حقوق- بحسن و خوبی انجام پائیں گے ،لیکن اگر اسے امن میسر نہ ہو ، خوف و ہراس اور دہشت نے گھیر لیا ہو تو وہ بد امنی ،انتشار و فساداور لاقانونیت میں ایسے مبتلا ہوگا کہ حقوق و فرائض ، واجبات و مسؤلیات ادا کرنے میں پریشانی ہوگی۔اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اہل مکہ کے لئے امن و امان کی دعا کی :’’ واذ قال ابراھیم رب اجعل ھذا البلد آمنا وارزق أھلہ من الثمرات من آمن منھم باللہ والیوم الآخر‘‘( البقرۃ : ۱۲۶) ’’ ائے اللہ اس شہر کو امن کا گہوارہ بنا دے ‘‘۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’من اصبح منکم معافی فی جسدہ آمنا فی سربہ عندہ قوت یومہ فکأنما حیزت لہ الدنیا ‘‘ (جامع ترمذی : ۲۳۴۶)یعنی جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ وہ تندرست ہو اور اپنے آپ میں پرامن ہو اور اسکے پاس ایک دن کی روزی ہو گویا اسکے لئے پوری دنیا کو جمع کر دیا گیا ۔ اس حدیث سے بھی انسان کی زندگی میں امن کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے ۔

أمن اور اسلام :-

اور اسی اہمیت کے پیش نظر مذہب اسلام نے امن و امان کو انسانیت کے لیے لازمی و مہتم بالشان قرار دیا اور اس کے حصول کی ہر ممکن دی بلکہ امن و امان کی اہمیت و فضیلت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اسکے اسباب و نتائج بھی بیان کئے چنانچہ قتل ناحق کو پوری انسانیت کے قتل مترادف قرار دیا ’’ من قتل نفساً بغیر نفس أو فساد فی الأرض فکانما قتل الناس جمیعاً ومن أحیاھا فکانما أحیاالناس جمیعاً ‘‘ ( المائدہ: ۳۲)  اسی طرھ شرک و بدعت ، زنا، چوری ، ڈکیتی ، رشوت ، سود ، جوا، ظلم و طغیان ،دھشت گردی اور خودکشی کو ناجائز بتا کر اسکی سزا متعین کی ، فساد پھیلانے والوں کے بارے میں یوں کہا : ’’انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الأرض فسادا أن یقتلوا أو یصلبوا أو تقطع أیدیھم وارجلھم من خلاف أو ینفقوا من الأرض ذلک لھم خزی فی الدنیا ولھم فی الآخرۃ عذاب عظیم‘‘( المائدہ : ۳۳) ۔

زنا کے بارے میں :  ’’الزانیۃ و الزانی فاجلدوا کل واحد منھما مأۃ جلدۃ ‘‘( النور : ۲)

چوری کی سزا بتائی :  ’’السارق و السارقۃ فاقطعوا أیدیھما جزاء بما کسبا ‘‘ ( المائدہ : ۳۸)

   مذہب اسلام معاشرہ و سماج میں امن و امان قائم کرنے کے لئے صرف ان جرائم کی سزا  بتانے پر اکتفا ہی نہیں کیا بلکہ ان اسباب کی نشاندہی کی جن کے ذریعے فردوسماج میں امن و امان قائم ہو سکتا ہے ،چنانچہ ایمان کو امن کے لیے لازمی قرار دیتے ہوئے کہا ’’ الذین آمنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم أولئک لھم الأمن وھم مھتدون ‘‘ (الانعام : ۸۲) اسی طرح افراد و سماج کے بھائی چارہ اور اخوت سے پیش آنے،  بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا فریضہ کو ادا و عام کرنے کی ترغیب دی اورگارجین حضرات، علماء و فضلاء، اسکول و کالجز کے ٹیچرس و ذمہ داران، مختلف محکموں کے افسران و عہدے داران کو اس کی ذمہ داری دی تاکہ معاشرہ ہر طرح  کے جرائم سے پاک رہے اور (لا ضرر ولا ضرار،ابن ماجہ : ۲۳۴۔حسن)کا صحیح نمونہ بن کر اتحاد و یکجہتی قائم کرسکے۔

قیام امن میں قومی یکجہتی کی اہمیت و ضرورت:-

کسی ملک و سماج میں امن و امان قائم کرنے ،سالمیت و ترقی اور استحکام کے لئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کی ضرورت ہوتی ہے، ہندوستان  جیسے عظیم جمہوری ملک جہاں ہمہ جہت تہذیب و کلچر اور مختلف مذاہب کے ماننے والے آباد ہیں ان میں باہم و بھائی چارہ ،محبت و الفت مشترکہ قدر یں و روایتین رہی ہیں ، اور انہی مشترکہ قدروں کے ذریعہ اس عظیم ملک میں آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد استقرار و امن قائم ہو بلکہ حریت و آزادی جو بذات خود امن کا پیش خیمہ تھی ہندو مسلم سکھ عیسائی سب نے مل کر قومی یکجہتی کا ثبوت دیتے ہوئے حاصل کیا تھا۔ مہاتما گاندھی،پنڈت نہر، مولانا ابوالکلام آزاد ،مولانا داؤد غزنوی ،مولانا عثمان قارقلیط، عبد الحلیم شرر اور مولانا عبد العزیز رحیم آبادی وغیرھم نے مل کر استعماری و فرنگی طاقت کا خاتمہ کیا تھا۔ اگر ان میں  آپسی رسہ کشی ،نفرت و عداوت، فرقہ واریت ،شدت و عدم برداشت ہوتی تو ملک آزاد نہ ہوتا ، انگریزان کا معاشی و سیاسی استحصال کرتے اور ظلم و جور کی داستان اور لمبی ہوتی ۔

آج جبکہ ملک عزیز کو فرقہ پرست طاقتوں کی طرف سے خطرہ لاحق ہے اور داخلی سالمیت و اتحاد کو پارہ پارہ و پاش پاش کرنا چاہتے ہیں، تشدد و دہشت گردی نے ہر پرامن شہری کا چین چھین لیا ہے، ہندو مسلم میں دوریاں بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ آپسی محبت و بھائی چارہ وفرقہ وارانہ ہم آہنگی ختم ہو کربدامنی اور افرا تفری پھیل رہی ہے ،سفر مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے ،ادارے محفوظ نہیں ہیں ، مساجد شدت پسند عناصر کے نشانے پر ہیں ، ایسی نازک گھڑی میں ملک میں قومی اتحاد و یکجہتی قائم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت و اہمیت ہے ، ہر مذہب اور ہر قوم کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں قیام امن کیلے سوچیں اور قومی یکتا و یکجہتی قائم کرنے کی راہ میں جو بھی جتن ہو سکے کریں جس طریقے سے ان کے اسلاف نے جتن کر کے اسے جنت نشان بنایا ہے ۔ 

قیام امن میں اہلحدیثوں کے مساعی :-

ملک کو درپیش خطرات و داخلی انتشار کی اس نازک و پریشان کن حالات میں ھم سلفیان ہند کی ذمہ داری دو چند ہو جارہی ہے کہ ہم اپنے عمل و اخلاق و کردار سے ملک میں قومی یکجہتی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کریں کیونکہ ہمارے اسلاف نے ماضی میں قیام امن میں نمایا کردار ادا کیا ہے انہوں نے مختلف پلیٹ فارم سے اس فریضہ کو انجام دیا ہے ، مدارس و جامعات قائم کر کے جہاں دینی تعلیم کو عام کیا وہیں ملکی سالمیت کی حفاظت میں زبردست رول ادا کیا، انہوں نے خود اپنی زندگی فلاح انسانیت و قومی یکجہتی میں وقف ہی نہیں کیا بلکہ اس کے لئے فرمانیاں دیں ، کالا پانی گئے ، دارودسن کا زندگی کاٹی ، سولی کے پھندے کو گلے سے لگایا ، اور ظلم و عدوان کا خاتمہ کرنے اور ملک میں امن و سکون قائم کرنے کیلئے مختلف وسیلے اختیار کئے ، مساجد کے ممبر و محراب کو استعمال کیا ، کتابیں لکھیں ، ردود لکھے ، مناظرے کئے ، مباھلے میں ڈٹے ، جرائد و مجلات نکالے ، مضامین لکھے ، تنظیمیں قائم کیں ، کانفرنس منعقد کیں ، اور اہلحدیث عوام کو قیام امن کیلئے ابھارا ، الغرض ہر ممکن وسائل کے ذریعہ ملک میں قومی یکجہتی کی فضا قائم کی اور قیام امن میں نمایاں رول ادا کیا اور اب بھی کر رہے ہیں ، اہلحدیثوں کی پوری تاریخ اس کا شاہد عدل ہے ۔سچ ہے : 

ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑجاتے تھے 

پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے 

قیام امن میں اہلحدیث علماء کا کردار :-

یہ ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ علماء اہل حدیث نے تحریک آزادی میں سب سے نمایاں خدمات انجام دیں، پروفیسر تارا چند اپنی کتاب ’’تاریخ تحریک آزادی ہند ‘‘میں لکھتے ہیں کہ جنگ آزادی ہند میں پانچ لاکھ علماء اہل حدیث کو انگریزوں نے شہید کر ڈالا ۔۔۔۔صرف بنگال میں دو لاکھ سے زیادہ اہل حدیث علماء شہید کر دیئے گئے ۔۔۔۔ذیل میں مختلف علاقے کے چند اہل حدیث علماء و مجاھدین آزادی کانام ذکر کیا جاتا ہے پھر بعض علماء کا خصوصی تذکرہ کریں گے ان شاء اللہ۔

شاہ اسحاق دہلوی ،شاہ اسماعیل شہید، سید احمد شہید ،سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی، محمد حسین بٹالوی، سید یحییٰ علی صادق پوری ، سید حیدر علی رامپوری، قاری کرامت علی جونپوری، ابو محمد ابراہیم آر وی ، عبدالوہاب آروی، عبد العزیز رحیم آبادی، شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری، ولایت علی صادقپوری، عنایت علی صادق پوری ،حافظ عبداللہ غازی پوری، سید داؤد غزنوی، قاضی سلیمان منصور پوری ،ابو القاسم سیف بنارسی، محمد ابراہیم سیالکوٹی، محمد اسماعیل سلفی، عطاء اللہ حنیف ،محی الدین احمد قصوری،محمد علی لکھنوی، سیداسماعیل غزنوی، عبداللہ قصوری ، سید عبدالغفار غزنوی، ابوالکلام آزاد، عبدالقیوم رحمانی،نذیر احمد رحمانی ،حافظ عبد الکریم صاحب ، دیوان گلشن ھدایت وغیرھم رحمھم اللہ رحمہ واسعۃ۔

انہوں نے اور ان کے علاوہ وہ دیگر علماء اہل حدیث نے ہمیشہ قومی یکجہتی کی ضرورت کو محسوس کیا اور اس کے سہارے ہندوستان سے انگریزوں کا قبضہ و تسلط کو ختم کرکے امن وامان قائم کیا اور آج بھی اسی فارمولا کے ذریعے قیام امن کی کوشش ثمر آور ہو سکتی ہے اس مشترکہ ورثہ کو چھوڑ کر ہندو اکیلے کوشش کرے یا مسلمان اکیلے محنت کرے ، وہ محنت و کوشش بیکار و رائیگاں جائیگی اسلئے آئیں دیکھیں مولانا ابو الکلام آزاد نے اس فارمولہ کو کتنی اھمیت دی تھی اور قومی اتحادی طاقت کی کیا حیثیت تھی ۔

مولانا ابوالکلام آزاد (۱۹۵۸ء) ایک صاحب طرز انشا پرداز، جادو بیان خطیب ،بے مثال صحافی، بہترین مفسر اور عالمی سیاست داں تھے جنہوں  نےقومی یکجہتی کے ذریعے ملک میں امن و امان قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی مولانا سمجھتے تھے کہ مسلمانان ہند کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ ہندوستانی قومیت اور سیکولرز م کو قبول کر لیں اسی لئے انہوں نے کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور مہاتما گاندھی کے قریبی ساتھی ہوگئے، مولانا قیام پاکستان کے سخت مخالف  تھےآپ نے تقسیم کے وقت مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا :-

’’ آپ مادر وطن چھوڑ کر جا رہے ہیں، آپ نے سوچا اس کا انجام کیا ہوگا ،آپ کے اس طرح کے فرار ہوتے رہنے سے ہندوستان میں بسنے والے مسلمان کمزور ہو جائیں گے اور ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے جب پاکستان کے علاقائی باشندے اپنی اپنی جداگانہ حیثیتوں کا دعوی لیکر کر اٹھ کھڑے ہوں،بنگالی، پنجابی ،سندھ ، بلوچ ،اور پٹھان خود کو مستقل قومیں قرار دینے لگیں، کیا اس وقت آپ کی پوزیشن پاکستان میں بن بلائے مہمان کی طرح نازک اور بے حسی کی نہیں رہ جائے گی ،ہندو آپ کا مذہبی مخالف تو ہو سکتا ہے قومی مخالف نہیں ، آپ اس صورتحال سے نمٹ سکتے ہیں، مگر پاکستان میںآپ کو کسی  وقت بھی قومی اور وطنی مخالفتوں تو کا سامنا کرنا پڑے گا جس کے آگےآپ بے بس ہو جائیں گے، میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان ہوں،اسلام کے تیرہ سو برس کی شاندارروایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں، میں تیار نہیں ہوں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دو ں اسلام کی تعلیم، اسلام کی تاریخ، اسلام کے علوم و فنون، اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایا ہے اور میرا فرض ہے کہ اسکی حفاظت کروں،بہ حیثیت  مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچر دائرے میں اپنا خاص ہستی رکھتا ہوں اور میں برداشت نہیں کر سکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے لیکن اس تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتا ہوں جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا۔اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی بلکہ وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے، میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں ،میں ایک ایسا عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل اور ھورہ رہ جاتا ہے ،میں اس کی تکوین کا ایک ناگزیر عامل فیکٹر ہوں ، میں اس دعوے سے کبھی دستبردار نہیں ہو سکتا ‘‘۔

مولاناآزاد رحمۃ اللہ علیہ ہندو مسلم اتحاد کے زبردست علمبردار اور وطن عزیز کے سچے اور مخلص و بے لوث جانثارتھے جنہوں نے یک قومی نظریہ کے ذریعہ ہندوستان میں امن و امان قائم کرنے میں قائدانہ و حکیمانہ رول ادا کیا اور قومی یکتا و یکجہتی کے خاطر مصائب و مشکلات اور شنام طرازیاں برداشت کی اس وقت بہت سے نہ عاقبت اندیشوں کو آپ کا مدبرانہ و دوراندیشانہ نظریہ پسند نہیں آیا بلکہ اسکی مخالفت کی لیکن تاریخ گواہ ہے کہ آپ نے جو خدشات و اندیشے میں ظاہر کیے تھے وہ تقسیم ہند کے بعدشیخ ثابت ہوگئے ، مولانا نے اگر صوبائی خلافت کانفرنس جو۱۹۲۱؁م میں منعقد ہوئی تھی اسکے خطبہ صدارت میں فرمایا تھا ’’ ہندوستان کی نجات کیلئے ہندو مسلم اتحاد ضروری ہے کیونکہ ملک کی ترقی ایک دوسرے کی ترقی کے بغیر نا ممکن ہے ‘‘ وہ ھمیشہ ملک دشمنی اور فرقہ پرستی جیسی لعنتوں سے بچنے کی تلقین کرتے اور ملک کی مستحکم تعمیر و ترقی کے لئے قومی یکجہتی و یکتا کی دعوت دیتے رہے ، ان کا واضح موقف یہ تھا کہ اگر آزادی نہ ملی تو ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن ہندو مسلم اتحاد نہ رہا تو انسانیت کا نقصان ہوگا ۔ 

قیام امن اور اہلحدیث اخبار :-

۱۸۵۷؁ م کے بعد جب پورے ملک پر انگریزی سامراج نے جابرانہ و قاھرانہ قبضہ کر لیا اور اطمینان کے ساتھ حکمرانی کرنے لگے بلکہ حکومت کو دوام بخشنے کیلئے نوجوانوں کو عیسائیت کی جانب راغب کرنا شروع کیا اور ہندو مسل کارڈ کھیل کر ’’ پھوٹ ڈالو حکومت کرو کی ‘‘ کی پالیسی اپنائی تو اہلحدیث علماء کرام ، ادباء و شعراء نے ان کا تعاقب کیا اور جرائد و مجلات اور اخبارت کے ذریعہ انگریزی سامراج کی غلط پالیسی و ناپسندیدہ کرتوت کی نقاب کشائی کی اور ملک کو درپیش چیلینج سے عوام کو آگاہ کیا اور قومی اتحاد کا نعرہ دیا چنانچہ علامہ محمد حسین بٹالوی نے  ۱۸۸۷؁ م میں ’’ اشاعۃ السنۃ ‘‘ اور ادیب باکمال عبد الحلیم شرر نے ۱۸۹۰؁ م میں ’’ دلگداز‘‘ (ماہ نامہ) جاری کیا پھر متعدد علماء اہل حدیث اس میدان میں آئے جنمیں سے چند مشہور و معروف علماء کرام اور ان کی ادارت میں شائع ہونے والے جرائد و مجلات کا نام مع سنہ اجرا لکھا جاتا ہے :-

(۱)  شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری ، اہلحدیث (ہفت روزہ) سنہ اجرا ۱۹۳۰ ؁م ، مرقع قادیان (ماہ نامہ ) سنہ اجرا ۱۹۰۷؁ م ۔ (۲)  امام الھند مولانا ابو الکلام آزاد ، الہلال (ہفت روزہ ) سنہ اجرا ۱۹۱۲؁ م ، البلاغ (ہفت روزہ) ، سنہ اجرا ۱۹۱۴؁ م ۔ (۳)  بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان ( زمیندار) ۱۹۰۹؁م ۔ (۴)  داعی کبیر علامہ محمد جوناگڑھی ، اخبار موسی (پندرہ روزہ ) سنہ اجرا  ۱۳۴۰؁ ھ ۔ (۵)  مولانا عبد المجید خان ، مسلمان (ماہ نامہ ) سنہ اجرا ۱۹۳۰؁م ۔ (۶)  مولانا ابو الفضل عبد الحنان بہاری ، اہلحدیث گزٹ سنہ اجرا ۱۹۳۳؁ م ۔ (۷)  علامہ نذیر احمد رحمانی ، محدث (ماہنامہ ) سنہ اجرا ۱۹۳۳؁ م ۔ (۸)  مولانا نور الھدی ، المجاھد ، سنہ اجرا ۱۹۴۰؁ م ۔ (۹)  ڈاکٹر سید عبد الحفیظ سلفی ، الھدی (ماہنامہ ) سنہ اجرا ۱۹۴۰ ؁ م ۔ 

اسکے علاوہ سیکڑوں ادبی و اخلاقی ، علمی و مذھبی اور سیاسی جرائد و مجلات کے ذریعہ قیام امن کی کوشش کی اور اسکے لئے انہیں پابند سلاسل کیا گیا ، اور کتنے کو ضبط کر لیا یا سرے سے موقوف کر دیا گیا ، مولانا آزاد کی الھلال اور البلاغ کے ساتھ پیش آنے والے انگریز کے جابرانہ و آمرانہ موقف کو اور خود مولانا رانچی کے قید و سلاسل کی زندگی کو کون بھلا سکتا ہے ، لیکن داد دیجئے مولانا آزاد اور اہلحدیث علماء کرام کو جنہوں نے فرنگیوں کے ظلم و ستم کو برداشت کیا اور ملک میں امن و امان قائم کرنے کیلئے باہمی اتحاد و قومی یکجہتی کو فروغ دیتے رہے یہاں تک کہ ہندوستان آزاد ہو گیا ۔ 

آزادی کے بعد مولانا عبد الجلیل رحمانی 

آزادی کے بعد یہ تحریک رکی نہیں بلکہ علماء اھلحدیث نے اس شاندار مشن کو جاری رکھا اور ۱۹۵۱   ؁ م مولانا عبد الجلیل رحمانی نے ’’ مصباح ‘‘ ماہنامہ نکالا ،پھر مولانا عبد الوہاب آروی نے   ۱۹۵۲؁ میں جریدہ ترجمان (ہفت روزہ ) نکالا جسکے اڈیٹر مولانا عبد الحکیم مجاذ تھے ، پھر ۱۹۶۹   ؁ میں جامعہ سلفیہ بنارس سے صوت الأمۃ (عربی ماہنامہ) اور ۱۹۸۲   ؁م میں محدث (ارسو ماہنامہ) کاری ہوا ، سلفی جرائد و مجلات کی مزید معلومات کیلئے دیکھئے (یادگار مجلہ أھلحدیث ایک تاریخی دستاویز ص ۱۷۷-۱۸۷) اسکے علاوہ ’’ اصلاح سماج (ھندی) دہلی ،’’ صوت الحق ‘‘ مالیگاؤں ممبئی، ’’راہ اعتدال ‘‘ مدراس، ’’آثار‘‘ مئو ناتھ بھنجن ، ’’نور توحید ‘‘ جھنڈا نگر (نیپال)، ’’السراج‘‘  جھنڈا نگر (نیپال)،’’ طوبی ‘‘ جامعہ امام ابن تیمیہ (بہار)،’’ توحید‘‘ کشن گنج، ’’ نوائے اسلام ‘‘ دہلی ، نیز دیگر علاقائی زبانوں بنگلہ ، ملیالم ، گجراتی اور ہندی میں شائع ہونے والے جرائد و مجلات باہمی اتحاد و اتفاق اور قومی یکتا کو فروغ دینے میں کوشاں ہیں اور جب بھی دلخراش و دلسوز واقعہ پیش آتا ہے تو اسکے اسباب و عوامل اور عواقب و انجام کی نشاندہی کرتے ہوئے ادارے شائع ہوتے ہیں تاکہ صبر و تحمل کی فضا قائم رہے اور ماحول سازگار و سنجیدہ بنارہے ۔ 

آزادی کے بعد جتنے فسادات ہوئے میرٹھ ، ملیانہ ، بھاگلپور ، سیتامڑھی ، مظفر نگر اور کاس گنج ان تمام واقعات کی نقاب کشائی کی گئی اور شر پشند عناصر و مجرمانہ کردار حامل افراد کی نشاندہی کے ساتھ مسلمانوں کو صبر و تحمل سے کام لینے اور آئین ہند کا پاس و لحاظ رکھنے اور باہم اتحاد و اتفاق قائم رکھنے پر زور دیا گیا کیونکہ فرقہ پرست طاقتیں یہی چاہتی ہیں کہ مسلمان برادران وطن کے ساتھ الجھے اور تناؤ میں رہیں ، اسکے لئے کبھی وہ مسلمان کی بڑھتی ہوئی آبادی کا بہانہ بنا کر اور کبھی گؤ رکھشا کے نام پر ہجومی تشدد کا ننگا ناچ کرتے ہیں ، کبھی مدارس کو دھشت گردی کے اڈے بتاتے ہیں اور کبھی ان کی حب الوطنی پر شک کرتے ہیں اور کبھی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو پاکستان کی حمایت کے شبہ میں گرفتار کرانے کی کوشش کرتے ہیں ، ایسے صبر آزما حالات میں مدیر ان جرائد و مجلات ملک و ملت کی مفاد میں ایسے مضامین اور ایسے ادارے شائع کرتے ہیں جو چشم کشا اور بصیرت افروز ہوتے ہیں اور ہندو مسلم میں یکجہتی و ہمدردی ،اتحاد و اتفاق قائم کرنے میں معاون بنتے ہیں ۔ 

قومی یکجہتی اور اہلحدیث مدارس و جامعات : - 

۱۸۵۷؁ م کے بعد ہندوستانی مسلمانوں اور ہندؤں کی جو حالات بنی اسے دیکھ کر علماء و دانشوران اہل حدیث ہند کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ اگر ہندوستان میں اپنا وجود و ملی تشخص باقی رہنا ہے تو نوجوانوں کو علم کی طاقت سے لیس کرنا ہوگا ، کیونکہ تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی بالخصوص دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کا ہونا ضروری ہے اور حاکم وقت کو یہ باور کرانا ہے کہ ہندوستانی قوم (ہندو مسلم) مذہبی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کو اہمیت دیتی ہے اور اس سے محبت کرتی ہے ، سر سید احمد خاں ایسے اہلحدیث عالم و دانشور تھے جنہوں نے  ۱۸۵۷؁ کے جانکاہ و جاں گسل حادثہ کو دیکھا تھا ان کے دل میں حب الوطنی کا جذبہ سر شار تھا وہ قومی یکتا کے داعی و علمبردار تھے اسلئے انہوں نے تعلیم کے ذریعہ ہندوستان کے مکدر فضا میں سکون پیدا کرنے کی کوشش کی اور  ۱۸۷۵؁ میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد رکھی جسے  ۱۹۲۰ ؁ میں یونیورسیٹی کا درجہ ملا اور بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کے نام سے عالمی شہرت حاصل ہوئی، یہ ایک عالمی مرکزی یونیوسیٹی ہے جسمیں ہندو مسلم سکھ عیسائی بچے پڑھتے ہیں اور قومی یکجہتی کا درس لیتے ہیں ، اس ادارے کو چمکانے کیلئے دیگر لوگوں کی طرح ایک اور سلفی عالم و ادیب صاحب حسدس خواجہ الطاف حسین حالی تھے جنہوں نے مخلصانہ و بے لوث محنت کی اور سرسید کے تعلیمی مشن کو آگے بڑھا کر قومی یکجہتی و راشٹریہ یکتا کا روشن مینار قائم کیا ۔ 

۱۹۴۷؁ میں جب ملک تقسیم ہو کر دو لخت ہو گیا تو سب سے زیادہ نقصان سلفیان ہند کو ہوا ان کے علماء شہید کر دئے گئے یا قید میں ڈالدئے گئے ، جائدادیں ضبط کر لی گئیں اور جو بچ گئے وہ پاکستان چلے گئے اور جامعہ رحمانیہ دہلی جو اہلحدثیان ہند کی آن بان شان تھی وہ بند ہوگیا کیونکہ اس کے منتظمین پاکستان چلے گئے لیکن ستائیس سال کی مختصر مدت میں جو کارنامہ انجام دیا اسکی مثال دوسرے مدارس میں نہیں ملتی الغرض آزادی کے بعد پھر سے مسلمان علمی ومذھبی اور سماجی و قومی اعتبار سے مضبوط ہونا چاہتے تھے انہیں معلوم تھا کہ علم کے بغیر کھویا وقار حاصل نہیں کیا جا سکتا ، اور جو ملی و تعلیمی نقصان ہوا ہے اسکی بھرپائی کرنا وقت کی ضرورت ہے اسلئے اہلحدیثوں نے متعدد ادارے قائم کئے جامعہ سلفیہ بنارس ، جامعہ دار السلام عمر آباد ، جامعہ فیض عام مئو، جامعہ اثریہ دار الحدیث مئو ،جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں ، جامعہ امام ابن تیمیہ بہار، جامعہ اسلامیہ سنابل دلی ، جامعہ ریاض العلوم دلی ، جامعہ اسلامیہ خیر العلوم ڈمریا گنج ، جامعہ سراج العلوم  جھنڈا نگر ، جامعہ سراج العلوم بہار، جامعہ امام بخاری کشن گنج ، جامعہ اسلامیہ دریاباد وغیرہ ۔ ان مدارس کے علماء و فضلا اور فارغین نے ہندوستانی عوام کے درمیان یکجہتی قائم کرنے اور ماحول کو بگاڑنے والوں کے خلاف مہم میں کلیدی کردار ادا کیا ، لیکن آج جبکہ ملک میں نئے سرے سے نفرت کا ماحول قائم کیا جارہا ہے باخصوص مدارس اسلامیہ کے طلبہ کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے ۔ مدارس کے طلبہ کو تفتیش کے نام پر اٹھا لیا جاتا ہے اور دوران سفر محمد جنید جیسے مظلوم طالب علم کو مار مار کر ختم کر دیا جاتا ہے ، مدارس کو دھشت گردی کے اڈے بتائے جارہے ہیں بلکہ مدارس سلفیہ کے صاف و شفاف و بےباک کرداروں کو داغدار کیا جارہا ہے ۔ایسے میں برادران وطن کے ساتھ مل بیٹھ کر قومی اتحاد قائم کرنا اور ان کے دلوں سے سکوک و شبہات دور کرنا نیز فرقہ پرست طاقتوں کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے ان کے سنجیدہ لوگوں سے تعاون لینا ارباب مدارس کی ذمہ داری ہے ، ساتھ ہی ساتھ سیکولر قوتوں کو یقین دلانا کہ مدارس کے داخلی و خارجی امور بالکل شفاف ہیں ، یہاں کسی بھی مشکوک افراد کے داخلہ پر مکمل پابندی ہے یہاں تک جو بھی آمد و رفت کرنا ہے اس کا مکمل ڈاٹہ رکھا جاتا ہے اسلئے مدارس کے اساتذہ و طلبہ کو شک کی نگاہ سے دیکھنا قطعاً درست نہیں ۔ 

شک کے ازالہ کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ غیر مسلم دانشوروں کو مدرسہ کے سالانہ تعلیمی و ثقافتی پروگرام میں دعوت دی جائے اور ملکی سالمیت کے عنوان پر تقاریر ، مکالمہ ، ڈبیٹ و مذاکرہ کرایا جائے پھر انہیں مدارس سلفیہ کے بارے میں اظہار رائے کا موقع دیا جائے ان شاء اللہ قومی یکجہتی و باہم تقارب پیدا کرنے میں مدد ملے گی ۔

قومی یکجہتی اور اہلحدیث ادب : -

ہندوستان ایسا ملک ہے جسمیں مختلف مذاھب و تہذیب و تمدن اور زبانوں کے ماننے والے رہتے بستے آرہے ہیں یہ ملک ہم لسانی ، ہم مذھبی ، ہم تہذیبی ملک ہے ۔ بقائے باہم اس ملک کی خصوصیات ہے ، جیو اور جینے دو ، بردباری ، شانتی ، امن وسکون ، مشترکہ قدریں ، گنگا جمنی تھذیب اس ملک کا وصف ہے اور قومی یکجہتی اس ملک کی وہ طاقت ہے جس نے پوری دنیا میں اس کا نام روشن رکھا ، اس وصف کو قائم دائم رکھنے میں عام اردو ادب کا اہم رول رہا اور خاص سلفی ادب کا خاصا کردار رہا ہے ، عام اردو ادب کو ہندو مسلم سکھ عیسائی اور دیگر طبقات نے اختیار کیا اور سلفی ادب کو سلفی علماء و ادباء و شعراء نے اختیار کیا اور معاشرتی و سماجی اور مذھبی ترقی میں استعمال کیا ساتھ ہی ساتھ رواداری ، صبر و تحمل ، اتحاد و اتفاق قائم کر کے قومی یکجہتی کو خوب خوب ترقی دی ، علامہ اقبال کا یہ شعر قومی یکجہتی کی زندہ مثال ہے :۔

مذھب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا  : ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ھمارا 

قیام امن میں مرکزی جمعیت اہلحدیث کا کردار : -

کسی کام کا منظم ڈھنگ و ٹھوس انداز میں کرنے کیلئے تنظیمیں وجود میں آتی ہیں ، دعوت و تبلیغ اصلاح و تجدید اور قیام امن کا کام سب سے عمدہ ہے اسلئے اہلحدیثوں نے اسکے لئے باقاعدہ آزادی سے قبل ایک تنظیم بنام ’’ آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس ‘‘ بمقام آرہ ، بہار ، دسمبر  ۱۹۰۶؁ م بنیاد ڈالی جسکے پہلے صدر مولانا عبد اللہ غازیپوری اور ناظم مناظر اسلام شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری قرار پائے ، پھر  ۱۹۵۷؁ م میں اسے ’’ مرکزی جمعیت اہلحدیث ہند ‘‘ کا نام دیا گیا جو الحمد للہ شروع دنوں سے اب تک مسلسل دعوتی ، تعلیمی ، سماجی ، ادبی اور رفاہی خدمات انجام دے رہی ہے ، اسکے موجودہ امیر محترم شیخ اصغر علی امام مہدی سلفی اور ناظم عمومی شیخ محمد ھارون سنابلی حفظھما اللہ ہیں جو لگاتار قومی یکجہتی کو فروغ دینے اور ملکی سالمیت کیلئے سیاستدانوں اور دانشوران قوم و ملت سے تبادلہ خیال کرتے رہتے ہیں اور مختلف سمینار و کانفرنس کے ذریعہ فرقہ واریت کی بیخ کنی میں کوشاں ہیں ۔ ملک میں امن و امان قائم کرنے کی صرف ایک ہی بنیادی وجہ ہے اور وہ ہے قومی یکتا و فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، ہندو مسلم مل کر جب تک ان نفرت انگیز سلوکیات کا مقابلہ نہیں کریں گے تب تک کہانی ختم ہونے والی نہیں ہے ۔ 

بلا شبہ قیام امن کیلئے قومی یکجہتی و راشٹریہ یکتا کی جو ضرورت ہے اسے مرکزی جمعیت اہلحدیث ہند محسوس کرتی ہے اور ان شاء اللہ یہ دعوی کرتی ہے کہ مرکزی جمعیت جو ندا لگائے گی اسکے پیچھے تمام اہلحدثیان ہند لبیک کہتے ہوئے دوڑیں گے اور فرقہ پرستوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ملک میں امن قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے ۔ 

قومی یکجہتی اور اہلحدیث عوام :-

جس طریقے سے اہلحدیث  علماء کرام اور خواص نے ملکی سا لمیت اور بقائے باہم کے لیے ہندو مسلم اتحاد و اتفاق کو لازمی قرار دیا اور انتشار و افتراق، عصبیت و تنگ نظری اور فرقہ واریت کے خاتمہ کے لئے ہرممکن وسیلہ اختارکیا اور اپنی تقریر ر و تحریر ر دونوں کو استعمال کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ،اسی طریقے سے اہلحدیث عوام نے بھرپور ان کی موافقت کی اور اپنے علاقے ،بلکہ پورے ملک پنپنے والے متعصبانہ فکر و نظر اور ظالمانہ و جابرانہ فسطائیت کاڈٹ کر مقابلہ کیا ، ہمیں نہیںلگتا کہ فسادات کی تاریخ میں کبھی اہلحدیث عوام نے امن مخالف نعرہ دیا ہو یا تشدد پسند قوموں کو تقویت پہنچائی ہو، ہم جس علاقے سے نسبت رکھتے ہیں وہ علاقہ سیمانچل کہلاتا ہے جہاں کٹیہار، پورنیہ ،کشن گنج ،ارریہ اور سپول اضلاع آباد ہیں یہاںکی اہل حدیث عوام بالکل امن پسند رہی ہے، پر آزادی کے موقع پر پر جب پورا ملک خاک و خون میں لت پت تھا ،ہندو مسلم فساد کی آگ میں پورا ملک جل رہا تھا ،تب سیمانچل بالکل شانت و پر سکون تھا،حالانکہ اہلحدیثوں کی کثیر تعداد تقریبا پینتیس لاکھ اس خطے میں آباد ہے لیکن نہ انھوں نےدنگا کیا اور نہ دنگائیوں کا ساتھ دیا ۔

موجودہ وقت میں جبکہ فرقہ پرست طاقتیں اور اسکی ذیلی تنظیمیں A.B.V.Pاور بجرنگ دل وغیرہ قومی یکتا کو بھنگ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ، سلفیان سیمانچل بلکہ پورے ملک کی اہلحدیث عوام ان کے ناپاک عزائم کو حکیمانہ و مدبرانہ کوششوں سے ناکام کر دیتی ہےہیں ، یہاں تک کہ اگر مسلم تنظیم آر ایس ایس کے مقابلہ کے نام پر مسلمانوں کو ورغلاتی ہے اور انہیں حکومت کے خلاف برانگیختہ کرتی ہے تو اسکی حماقت و ناعاقبت اندیشی سے لوگوں کو دور رہنے کی تلقین کرتی ہے کیونکہ ٹکراؤ کی پالیسی کبھی بھی مسلمانوں کے حق میں سود مند اور مفید نہیں رہی ، الغرض اہلحدیث عوام باہمی اتحاد و اتفاق ، اخوت و بھائی چارہ اور قومی یکجہتی و راشٹریہ یکتا کو قائم کرنے اور اسے فروغ دینے اور اس سلسلے میں حکومت کو تعاون دینے میں پیچھے نہیں ہے بلکہ حکومت تو کیا کسی بھی امن پسند تنظیم، سوسائٹی ، اور امن پسند لوگوں کو چاہے ہندو ہوں یا مسلمان ان کو تعاون دینے میں پیچھے نہیں رہے گی ۔ ان شاء اللہ ۔ اہلحدیثوں نے ھمیشہ امن پسند لوگوں کا ساتھ دیا اور ان کی پارٹی و تنظیم میں شامل ہوئے ، کانگریس ، تحریک ریشمی رومال ، مسلم لیگ ، جمعیت علماء ہند سب میں شامل رہے اور آج قیام امن کیلئے ہر اس جماع کا ساتھ دے رہی ہیں جو آئین ہند کی پاسداری کے ساتھ قومی یکتا کی بات کرتی ہے ۔ 

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ تعالی اہلحدثیان ہند کی حفاظت فرمائے اور انہیں ملک میں قیام امن کی راہ میں قومی یکجہتی کو فروغ دینے کی توفیق عطا فرمائیں ،آمین۔ 



 







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے