Header Ads Widget

Responsive Advertisement

زکوۃ کی اہمیت اور فضیلت


شریعت اسلامیہ میں سب سے زیادہ اہمیت توحید کو حاصل ہے اسکے بعد بدنی عبادات میں سب سے زیادہ اہمیت کے حامل عبادت نماز ہے ، اسکے بعد مال میں زکوۃ ہے ،اسکے بعد روزہ ہے پھر حج ہے ۔ 

اسلام کی ان پانچ بنیادوں کے اوپر اسلام کی پوری کی پوری ع مارت کھڑی ہئی ہے اسمیں سے کوئی ایک اینٹ نکال لی جائے تو بنیاد بہت کمزور ہو جائے گی ۔وہ مشہور حدیث آپ لوگ جانتے ہی ہونگے کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہیں تو وہ پانچ چیزیں یہی ہیں ( ۱) شھادۃ ان لا الہ الا اللہ وان محمد رسول اللہ (۲) نماز قائم کرنا (۳) زکوۃ دینا (۴) رمضان کے روزے رکھنا (۵) اگر وہ صاحب نصاب ہے تو حج کر نا ۔ آج مجھے ان پانچوں بنیاد میں سے ایک بنیاد زکوۃ کے اوپر بحث کرنا چاہیں گے ۔ 

زکوۃ کے لغوی معنی :  لفظ زکوۃ ’’ بڑھنا‘‘ نشو و نما پانا اور پاکیزہ ہونا کے معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔

زکوۃ کی شرعی تعریف :  زکوۃ ایسا حق ہے جو مال میں واجب ہے جسے کسی فقیر یا اسکی مثل کسی شخص کو ادا کیا جاتا ہے جبکہ وہ کسی شرعی مانع کے ساتھ متصف نہ ہو ۔ 

قارئین کرام : اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کو مال عطا کرتا ہے ، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ ، پھر انہیں مال خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے ، انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دلاتا ہے اور بخل اور کنجوسی سے منع کرتا ہے ۔اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے :  {مثل الذین ینفقون أموالھم فی سبیل اللہ کمثل حبۃ أنبتت سبع سنابل فی کل سنبلۃ مئۃ حبۃ واللہ یضاعف لمن یشاء واللہ واسع علیم}(البقرۃ : ۲۶۱) جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے مال کی مثال اس دانے جیسی ہے جس سے سات بالیاں اگیں اور ہر ایک بالی میں سو سو دانے ہو اور جس کو چاہتا ہے زیادہ کر دیتا ہے اور بڑی وسعت والا سب کچھ جاننے والا ہے ۔ 

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ اگر آپ اللہ کی راہ میں ایک روپیہ خرچ کریں گے تو وہ ایسے ہیں جیسے آپ نے سات سو روپئے خرچ کئے ،یعنی اللہ تعالی آپ کو اس کا ثواب سات سو گنا یا اس سے زیادہ عطا کرے گا ۔ اگر ایک مالدار آدمی کسی شخص کو کہے کہ آج تم فلاں آدمی کو ایک سو روپےدے دو ، میں کل تمہیں اسکے بدلہ میں سات سو روپے دونگا ، تو کیا وہ شخص اسے سو روپے دینے سے ہچکچائے گا ؟یا حیل و حجت پیش کرے گا ؟ نہیں ! ہر گز نہیں کیونکہ اسے معلوم ہے کل مجھے اس کے بدلے میں ایک سو نہیں بلکہ سات سو روپے مل جائیں گے ،تو آپ لوگوں کا کیا خیال ہے اس ذات بابرکات کے بارے میں جس کے پاس تمام خزانوں کی چابیاں ہیں ، جس کے خزانے سارے کے سارے بھرے ہوئے ہیں اور وہ اپنے بندوں پر نہایت مہربان اور بڑے کرم والا ہے ، وہ اپنے وعدہ میں سچا ہے اور وہ یہ فرماتا ہے کہ تم میری راہ میں خرچ کرو میں تمہیں سات سو گنا زیادہ اجر و ثواب دوںگا ،تو کیا وہ اس پر قادر نہیں ؟ اور کیا ہمیں اس کے حکم کے مطابق اس کی راہ میں خرچ نہیں کرنا چاہئے ؟ جبکہ اس کا ارشاد ہے : {وما تقدموا لأنفسکم من خیر تجدوہ عند اللہ ھو خیراً و اعظم أجرا}(المزمل : ۲۰)اور جو کار خیر بھی آپ اپنے لئے آگے بھیجیں گے اسے اللہ کے یہاں اس حال میں پائیں گے کہ وہ اصل عمل سے بہتر اور اجر کے لحاظ سے بہت بڑا ہوگا ۔

ایک اور آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے رات دن خرچ کرنے والے لوگوں کو یوں بشارت دی ہے : {الذین ینفقون أموالھم باللیل و النھار سراً و علانیۃً فلھم أجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولاھم یحزنون }(البقرۃ : ۲۷۴) جو لوگ اپنے مال خرچ کرتے رہتے ہیں ،دن رات ، خوفیہ طور پر اور ظاہری طور پر ، ان کا صلہ اللہ کے پاس ہے ، اور ان کو (قیامت کے دن ) نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ غم ۔

بلکہ اللہ تعالی نے ایک اور مقام پر واضح طور پر فرمایا ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک نیکی نہیں پا سکتا جب تک وہ اپنا محبوب مال خرچ نہ کرے ۔ارشاد باری ہے : {لن تنالوا البرا حتی تنفقوا مما تحبون وما تنفقوا من شئ فان اللہ بہ علیم }(آل عمران : ۹۲) تم اس وقت تک نیکی ہر گز نہیں پاسکتے جب تک اس چیز میں سے خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہو ،اور تم جو بھی خرچ کرتے ہو اللہ تعالی اسے خوب جانتا ہے ۔ 

جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے انفاق فی سبیل اللہ کی کیا عمدہ مثالیں قائم کی ، اس کا اندازہ حجرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے قصے سے لیا جاسکتا ہے :چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ انصار مدینہ میں سب سے زیادہ مالدار تھے ۔ اور انہیں اپنے اموال میں سے سب سے زیادہ محبوب مال ایک باغ تھا جو مسجد کے سامنے واقع تھا اور اسمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جایا کرتے تھے ۔ اور اس سے نکلنے والا عمدہ پانی نوش کیا کرتے تھے ۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی :  {لن تنالوا البرا حتی تنفقوا مما تحبون وما تنفقوا من شئ فان اللہ بہ علیم}(آل عمران : ۹۲)تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا ائے اللہ کے رسول اللہ تعالی اپنی کتاب میں فرماتا ہے  {لن تنالوا البرا حتی تنفقوا مما تحبون وما تنفقوا من شئ فان اللہ بہ علیم }(آل عمران : ۹۲) اور میرا سب سے محبوب مال یہ باغ ہے سو میں نے یہ اللہ کے لئے صدقہ کر دیا ہے ، اور اس پر میں اللہ تعالی ہی سے اجر و ثواب کا طلب گار ہوں اور اسے اس کے پاس ذخیرہ کرنا چاہتا ہوں لھذا وآپ اسے جہاں چاہیں خرچ کریں ۔ تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بخ ، ذلک مال رابح ، ذلک مال رابح ‘‘بہت خوب ، یہ نفع بخش مال ہے ، یہ نفع بخش مال ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے تمہاری بات سن لی ہے ، لیکن میرا خیال یہ ہے کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دو ، چنانچہ انہوں نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچیرے بھائیوں میں بانٹ دیا ۔(بخاری ) 

زکوۃ ہر صاحب نصاب پر فرض ہے : جو آدمی صاحب نصاب ہوتے ہوئے اپنے مال سے زکوۃ نہیں نکالتا ، قرآن میں بھی اس کے لئے بڑی بڑی وعیدیں آئی ہیں ۔ مثلا ایک حدیث امام بخاری رحمہ اللہ علیہ کتاب الزکوۃ کے اندر لائے ہیں : ’’عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( من آتاہ اللہ مالا فلم یؤد زکاتہ مثل لہ مالہ یوم القیامۃ شجاعاً اقرع لہ زبیبتان یطوقہ یوم القیامۃ ثم یأخذ بلھزمتیہ یعنی بشدقیہ ثم یقول انا مالک انا کنزک ثم تلا (و لا یحسبن الذین یبخلون بما آتاھم اللہ من فضلہ ھوا خیرً لھم بل ھو شر لھم سیطوقون ما بخلوا بہ یوم القیامۃ ‘‘(رواہ البخاری )  حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس آدمی کو اللہ نے مال عطا کیا  ’’من آتاہ اللہ مالا‘‘جس آدمی کو اللہ نے مال دیا ، ’’فلم یؤد زکاتہ‘‘اگر وہ اپنے اس مال سے زکوۃ نہیں نکالتا تو’’مثل لہ مالہ یوم القیامۃ شجاعاً اقرع‘‘تو اسکے اس مال کو ایک گنجے سانپ کے شکل میں تبدیل کر دیا جائےگا ،جسکے دو زبانیں ہوں گی ، پھر اسی سانپ کو اسکے گلے کا توق بنا دیا جائے گا ، اسکے گلے میں لپیٹ دیا جائیگا ، سانپ کی جو دو زبانیں ہیں ، ان دو زبانوں کے ذریعہ اس آدمی کے اوپر حملہ کرے گا اور اپنا زہر اسکے بدن کے اندر ڈالے گا ، کس طریقے سے ؟ اسکی باچھؤں کو پکڑ لے گا ایک زبان سے ایک باچھو کو پکڑے گا جسکو عربی میں شدق بولتے ہے اور لھزمۃ بھی بولتے ہے اور دوسری زبان سے ایک باچھو کو پکڑے گا اور اسکو ڈسےگا اور بولے گا ، میں تیرا مال میں تیرا خزانہ ، میں تیرا وہ مال ہوں جسکو تونے اللہ رب العزت کی راہ میں خرچ نہیں کیا ، میں تیرا وہ مال ہوں جسکو تو نے ذخیرہ کر رکھا تھا ، اور اس میں جو غریبوں کا حق بن گیا تھا وہ حق تو نے انکو عطا نہیں کیا تھا ، آج میں تیرے اوپر سانپ کے شکل میں اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے مسلط کر دیا گیا ہوں ، یہ حدیث بیان کرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی :’’و لا یحسبن الذین یبخلون بما آتاھم اللہ من فضلہ ھوا خیرً لھم‘‘ اللہ نے جن کو اپنا فضل(مال) دے رکھا ہے اور فضل میں سے خاص فضل دولت ، مال اور خزانہ دے رکھا ہے لیکن وہ اس مال اور خزانے کے اوپر وہ سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہے ، اللہ کی راہ میں ایک پیسہ خرچ کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ، یہ بخیلی کرنے والے لوگ یہ نہ گمان کرے کہ انکا یہ بخیلی انکے حق میں بہتر ہے  بل ھو شر لھمیہ بخیلی انکے حق میں بہت ہی بدتر ہے ، آگے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : ’’سیطوقون ما بخلوا بہ یوم القیامۃ‘‘  جس مال کو انہوں نے بخیلی کی وجہ سے جمع کر لیا تھا وہ مال قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا ، اب گلے کا طوق کیسے بنایا جائےگا ؟ ایک گنجے سانپ کے شکل میں مال کو لایا جائے گا اور وہ گنجا سانپ اسکے گلے میں طوق کی شکل میں پہنا دیا جائےگا اور برابر ڈستا رہے گا اور یہ کہتا رہے گا’’ انا مالک انا کنزک‘‘میں تیرا مال میں تیرا خزانہ ۔ یہ وعید بھی ایک بخیل آدمی کو چوکا دینے کیلئے کافی ہے ، لرزانے کیلئے کافی ہے ۔ 




مال سب اللہ کا ہے:   آج لوگ کہتے ہیں میرا مال میرا مال ، یہ میرا خزانہ ہے ، یہ میرا پلاٹ ہے ، یہ میری عمارت ہے ، یہ میری کار ہے ، حالانکہ انسان کا صرف اور صرف تین ہی مال ہیں اور وہ تین چیز یہ ہیں :ــ’’ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ ، أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال :یقول العبد مالی مالی ، انما لہ من مالہ ثلاث ،ما أکل فأفنی أو لبس فأبلی أو أعطی فاقتنی وما سوی ذلک فھو ذاھب و تارکہ للناس ‘‘(رواہ مسلم فی کتاب الذھد والرقائق) حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بندہ بولتا ہے میرا مال میرا مال ، (یہ میری بلڈنگ ہے ،یہ میری جائداد ہے )حالانکہ اس کا مال صرف تین چیزیں ہے ، ’’ انما لہ من مالہ ثلاث‘‘اس کامال صرف اور صرف تین ہی ہے ، ’’ما أکل فأفنی‘‘جو کھالیا بدن کو لگ گیا خون بن گیا اسکو فائدہ ہو گیا یہ اسکا مال ہے ،’’أو لبس فأبلی‘‘یا کپڑا سلوا کر پہن لیا ، اس سے اسکو فائدہ پہنچ گیا ، ’’أو أعطی فاقتنی‘‘یا اس نے اللہ کے راہ میں دے دیا ، وہ اللہ کے پاس جمع ہو گیا ،نبی کریم ﷺنے اس کی   تفسیر فرمائی یا راوی نے اسکی تفسیر کی’’ ادخر لآخرتہ ‘‘ آخرت کیلئے اس نے ذخیرہ کر لیا یہی تین ہی اس کا مال ہے ’’وما سوی ذلک‘‘ اسکے علاوہ جو اسکے پاس مال ہے’’ فھو ذاھب‘‘ وہ چلے جانے والا ہے’’ وتارکہ للناس‘‘ اور لوگوں کیلئے چھوڑ دینے والا ہے ۔ اب یہ جھگڑے کی جڑ ہے ، بیٹا کہے گا مجھے اتنا ملنا چاہئے ،بیٹی کہی گی مجھے اتنا ملنا چاہئے اور جو وارثین ہے وہ کہیں گے مجھے اتنا ملنا چاہئے۔ معلوم یہ ہوا مال جو وہ چھوڑ کر گیا ہے وہ جھگڑے کی سبب بنتا ہے اس سے اسکو کوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا ۔ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ اگر اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو تو وہ قیامت کے دن کیلئے جمع رہے گا ، اور اچھے حالت میں رہے گی ۔ 

مال کی اہمیت تو ہے اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہے ، یہاں تک کہ جب آدمی دنیا سے چلے جاتا ہے تو بھی مال اسکا پیچھا نہیں چھوڑتی کیونکہ مردہ کو تجہیز و تکفین کی ضرورت پڑتی ہے اگر مال نہ ہو تو تجہیز و تکفین کہاں سے ہوگی ۔ لہذا مال کی فہ نفسہ اپنی جگہ بہت اہمیت ہے ، لیکن مال کے کچھ اصول و ضوابط اللہ تعالی نے مقرر کر دئے ہیں ۔ ان اصول و ضوابط کی روشنی میں ہمیں مال کو خرچ کرنا ہے ۔ ہمیں مال اللہ نے دیا ہے مال ہمارا نہیں ہے، یہ تو مجازاً اللہ تعالی نے بول دیا کی تمہارا ہے ۔اللہ بولتا ہے مال ہمارا ہے ، ہم نے تم کو دیا ہے ۔اللہ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : ’’ وآتوھم من مال اللہ الذی آتاکم ‘‘ ان کو دو جو مستحق ہے اپنے مال میں سے نہیں ،’’من مال الذی آتاکم ‘‘ اللہ کے اس مال سے جو اللہ نے تمہیں دیا ہے ۔ تمہار مال ہے ہی نہیں ،تم غریب ہو ، لاچار ہو ، محتاج ہو، تم فقیر ہو ، تمہارے پاس جو بھی مال ہے سب کے سب مال اللہ ہی کا ہے ۔ 

معصوم عن الخطاء اللہ کے فرشتے اللہ کے راہ میں خرچ کرنے والے کے حق میں یہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ ان کے مال میں بڑھوتری عطا کر اور ایک فرشتہ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے والے کے حق میں یہ دعا کرتا ہے کہ اسکے مال کو تباہ کر دے ۔ اسکی تائید میں حدیث یوں ہے : ’’ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : ما من یوم یصبح العباد فیہ ، الا ملکان ینزلان یقول أحدھما : اللھمّ أعط منفقاً خلفاً ، ویقول الآخر اللھم أعط ممسکاً تلفاً ‘‘(صحیح بخاری ، کتاب الزکوۃ )حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا : کوئی صبح بندہ کی ایسی نہیں ہوتی ہے کہ ہر صبح کو دو فرشے آسمان سے اترتے ہیں ان میں سے ایک اللہ سے یہ دعا کرتا ہے’’ اللھمّ أعط منفقاً خلفاً‘‘ ائے اللہ تیرے راستہ میں جو لوگ خرچ کر رہے ہیں ، اس خرچ کا اچھا نعم البدل عطا فرما ، اور دوسرا فرشتہ کہتا ہے ’’اللھم أعط ممسکاً تلفا‘‘اے اللہ بخیل جو تیرے راستہ میں تیرا مال تیرے حقدار بندوں تک نہیں پہونچاتا ہے اسکا مال ضائع کردے ، برباد کردے ۔ ظاہر ہے یہ دعا معصوم مخلوق کر رہی ہے ، اللہ کے فرشتے کر رہے ہیں ظاہر ہے اللہ تعالی انکی دعا کو ضرور قبول کرے گا ، اور ایسا ہوتا ہے اللہ تعالی اپنے راستہ میں خرچ کرنے والوں کو نعم البدل عطا کرتا ہے اور بخیل کے مال کو اللہ تعالی ضائع کر دیتا ہے ، مال ضائع ہونے کے کئی راستے بنا دیتا ہے ، طرح طرح کی بیماریاں دیتا ہے جس سے اسکا مال برباد ہو جاتا ہے ۔ 

اللہ کے راہ میں خرچ کرنے والوں کے حق میں حسد جائز ہے:  حسد ناجائز ہے ،حسد نہیں کرنا چاہئے ، لیکن دو چیزیں ایسی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حسد کسی بھی مقام میں جائز نہیں ہے سوائے دو جگہوں کے ۔ جسکے بارے میں حدیث میں آتا ہے : ’’ وعن ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ قال : سمعت النبی ﷺ یقول ، لا حسد الا فی اثنتین : رجل آتاہ اللہ مالاً ، فسلطہ علی ھلکتہ فی الحق ، ورجل آتاہ اللہ حکمۃً فھو یقضی بھا و یعلمھا ‘‘ (صحیح بخاری ، کتاب الزکوۃ )۔

حضرت عبد اللہ ابن مسعود بیان کرتے ہیں میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حسد صرف دو آدمیوں سے جائز ہے اور کہی بھی حسد درست نہیں ہے ۔ جسکو اللہ تبارک وتعالی نے مال عطا فرمایا اور مال عطا کرنے کے بعد اسے حق کے راستہ میں خرچ کرنے کے لئے لگا دیا ۔’’ فسلطہ علی ھلکتہ فی الحق ‘‘ مال کو حق کے راستہ میں خرچ کرنے کیلئے لگا دیا تو ایسے مالدار سے حسد جائز ہے ،اللہ اور اسکو عطا فرما ۔اور دوسرا وہ آدمی جس سے حسد کرنا جائز ہے وہ علم والا ہے جسکو اللہ نے علم دیا ہے لیکن علم کو دبا کر نہیں بیٹھتا بلکہ علم لوگوں تک پہنچا تا ہے ، علم کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہے ،علم کی روشنی میں فتوی دیتا ہے ’’فھو یقضی بھا‘‘ علم کی روشنی میں فتوی دیتا ہے اور لوگوں کو تعلیم بھی دیتا ہے ’’ویعلمھا‘‘ فیصلہ بھی کرتا ہے اور لوگوں کو تعلیم بھی دیتا ہے تو ایسے عالم سے حسد کرنا جائز ہے ۔جو اللہ کے راستے میں خرچ کرتا رہتا ہے ۔ معلوم یہ ہوا کہ علم اور مال دونوں کو ایک جگہ جمع فرما دیا ، گویہ علم کی مدد مال کے ذریعہ ضروری ہے ۔ جہاں بھی علم کیلئے مال کی ضرورت پڑے دل کھول کر کے خرچ کرو ۔ 

آج مسلمانوں کی زندگی کے تمام  پہلو،تمام شعبہ تباہ و برباد ہوکر کے رہ گئے ہیں ، کوئی بھی شعبہ ان کے زندگی کا اپنی اصلی حالت پر نہیں ہے ،زندگی کے تمام شعبہ اپنی اصلی حالت سے پھر گئے ہیں ، ان میں سے نظام زکوۃ بھی ہے خلافت عباسیہ تک جو نظام تھا وہ بالکل درست تھا، زکوۃکا نظام پورا اچھی طرح سے چل رہا تھا لیکن تاتاریوں کے حملہ کے بعد یہ نظام جو بکھرا تو آج تک اس نظام کو سمیٹا نہیں جا سکا، ایک ہے زکاۃ اور ایک انفاق فی سبیل اللہ، اللہ کے راستے میں خرچ الگ چیز ہے اور زکوۃ دینا الگ چیز ہے، زکوۃ تو فرض ہے وہ تو دینا ہی ہے آپ کو، اس کے علاوہ میں بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرنا ہے، اور انفاق فی سبیل اللہ اور زکاۃ میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ زکوۃ اجتماعی ادا کی جاتی ہے اور انفاق فی سبیل اللہ اللہ کے راستے میں خرچ کرنا یہ انفرادی معاملہ ہے زکوۃ اجتماعی طور پر ادا کی جائے ، اور اگر حکومتی سطح پر یہ کام نہیں ہو رہا ہے تو محلہ کی سطح پر یہ کام کیا جائے،صوبائی کے سطح پریہ کام کیا جائے، محلہ کے اندر ایک تنظیم بنائی جائے، ایک کمیٹی بنا لیا جائے، اور کسی کو امیر بنا دیا جائے، اور پیسہ جمع کیا جائے ،اس کے بعد محلہ کے جو غریب لوگ ہیں جو فقراء ہے جو آٹھ مدات ہیں ، جہاں ضرورت ہو اس مد کے اندر دیا جائے ،خدا کی قسم اگر آج مسلمان نظام زکوۃ کوصحیح کر لےتو حضرت عمر ابن عبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہ کا دور آ جائے، ان کے دور کے بارے میں ایک سیرت کا طالب علم ہے یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ آدمی زکوۃ لیے پھرتا تھا کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں تھا ،یہاں تک کہ غریب سے غریب آدمی بھی زکوۃ نکالتے تھےتو دیکھیے کیسا زکوۃ کا نظام رہا ہوگا۔

خرچ کرنے والوں کی فضیلت:   اللہ تعالی نے ہمیشہ اقیموالصلوۃ کے ساتھ وآتوالزکوۃ کہاں ہے،نماز قائم کرو اور زکوۃ دو جیسے نماز زکوۃ کے ساتھ ہے ویسے ہی زکات جماعت کے ساتھ، دونوں ایک ساتھ اسی وجہ سے آئے ہیں کہ اجتماعی طور پر زکوۃ ادا کی جائے، انفرادی طور پر آپ کو خرچ کرنا ہے تو انفاق فی سبیل اللہ کیجئے ،اپنی طرف سے،اپنی جیب سے دیجئے جو فرض نہیں ہے، اورزکوۃ  فرض ہے یہ اجتماعی طور پر ادا ہوگی، اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں ان کی فضیلت کیا ہے اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے ’’وقال اللہ انی معکم لئن أقمتم الصلاۃ وآتیتم الزکاۃ وآمنتم برسلی و عزرتموھم و أقرضتم اللہ قرضاً حسناً لأکفرنّ عنکم سیأتکم و لأدخلنکم جنات تجری من تحتھا الأنھار‘‘(سورۂ مائدہ :۱۲) اللہ فرماتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، کس وجہ سے ساتھ ہوں؟ تم نے اگر نماز قائم کی ، ’’وآتیتم الزکاۃ‘‘ اور زکوۃ ادا کی، اس کے بعد’’آمنتم برسلی‘‘ کہا گیا، زکوۃ اللہ اور اس کے رسول کے راہ میں خرچ کیے جائیں، اسی وجہ سے ’’وآتیتم الزکاۃ‘‘ کے بعد’’ آمنتم برسلی ‘‘ہے جبکہ یہاں کوئی محل نظر نہیں آرہا ہے لیکن ’’وآتیتم الزکاۃ‘‘ کے بعد’’ آمنتم برسلی ‘‘کا کہنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مال اللہ کہ راہ میں خرچ کیا جائے، اللہ اور اسکے رسول کے راہ میں خرچ کئے جائیں ،رسول جو تحریک لے کر چلے تھے ،اب قیامت تک کوئی رسول آنے والا نہیں ،اب ایہ امت کا اجتماعی اور انفرادی فریضہ ہے کہ اس تحریک کو آگے بڑھانے کیلئے زیادہ سے زیادہ خرچ کریں ۔ اور اگر یہ اجتماعی پیمانے پر ہو تو اسکے فوائد اور زیادہ بڑھ جائیں گے، ’’وعزرتموھم و أقرضتم اللہ قرضاً حسناً ‘‘ جو آدمی اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ اللہ کو قرض دیتا ہے ۔اللہ اکبر۔ اور اللہ جب قرض دیتا ہے تو اسکو ادا کیسے کرےگا ؟جب اللہ تعالی ادا کرے گا تو اپنے شان کے مطابق ادا کرے گا ،اور اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والے کے حق میں فائدہ یہ بتایا گیا’’لأکفرنّ عنکم سیأتکم ‘‘ترنت گناہوں کا کفارہ ہو جائےگا۔ یعنی اللہ کے راہ میں خرچ کرنا گناہوں کا کفارہ ہے یعنی آپ گناہ معاف کروانا چاہتے ہیں تو اللہ کے راہ میں صدق دل کے ساتھ خرچ کرو ، اللہ تمہارے گناہوں کو کفارہ بنا دے گا ۔ اور سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ جو اللہ نے کہی ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ، اور اللہ جسکے ساتھ ہو جائے ، دنیا میں کوئی اسکا کچھ بگاڑ نہیں سکتا ،شرط یہ ہیکہ اقامۃ الصلوۃ کے ساتھ ایتاء الزکاۃ ہونا چاہئے ۔اللہ نے تمہارے ساتھ کیوں چھوڑ دیا ؟ یہ دونوں چیزیں گڑبڑ ہو گئی ہے، مسلمانوں کے زندگی میں یہ دونوں چیزیں نہیں ہے ، اقامۃ الصلاۃ بھی نہیں ہے اور ایتاء الزکاۃ بھی نہیں ہے ، یہ تو فضیلت ہے خرچ کرنے والوں کیلئے ۔




 

وعید ہے نہ خرچ کرنے والوں پر:   اللہ رب العزت سورہ محمد کے آخر میں فرماتا ہے کہ اگر تم بخل کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کروگے، تو ہم تمہیں ختم کر کے دوسرے لوگ کو لے آئیں گے جو تمہاری طرح بخیلی نہیں کریں گے بلکہ خرچ کرنے والے ہوں گے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’ ھا أنتم ھؤلاء تدعون لتنفقوا فی سبیل اللہ فمنکم من یبخل ومن یبخل فانما یبخل عن نفسہ ، واللہ الغنی وأنتم الفقراء ،وان تتولّوا یستبدل قوماً غیرکم ثم لا یکونوا أمثالکم ‘‘(محمد : ۳۸) اللہ فرما رہا ہے کہ سنو، تم کو بلایا جا رہا ہے’’ھا أنتم ھؤلاء تدعون‘‘ تم کو بلایا جا رہا ہے کیوں ؟  ’’لتنفقوا فی سبیل اللہ‘‘تاکہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو ،لیکن تم میں کچھ بخیل بھی ہے،بخیلی کر رہے ہیں ’’فانما یبخل عن نفسہ‘‘ جو آدمی بخیلی کر رہا  ہےوہ اپنے نفس کے ساتھ وہ اپنی جان کے ساتھ بخیلی کر رہا ہے اوراللہ کو تمہارے خرچ کی ضرورت نہیں ’’’ اللہ الغنی‘‘اللہ تو بے نیاز ہے’’ وأنتم الفقراء‘‘ اور تم فقیر ہو ، اور اگر خرچ نہیں کروگے تو تمہارے لئے وعید ہے ، سزا ہے ،’’وان تتولّوا یستبدل قوماً غیرکم‘‘تم کو مٹا کر کے دوسری قوم لے آئے گا ،جو تمہاری جیسی نہیں ہوگی ۔

اللہ تعالی نے بتا دیا کہ جو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا اسکو مٹا دےگا ۔ اسکو نیست و نابود کر دے گا ،اور ان کی جگہوں پر دوسروں کو لے آئے گا ،تمہاری اسی بخیلی کی وجہ سے ۔

اللہ سے دعا ہے کہ اے اللہ ہمیں حلال کمائی کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور تیرے راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔آمین




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے