Header Ads Widget

Responsive Advertisement

’’وضعی قانون ‘‘ شریعت اسلامیہ کی روشنی میں(تحریر : ڈاکٹر رحمت اللہ محمد موسی السلفی)

تحریر : ڈاکٹر رحمت اللہ محمد موسی السلفی 

(چیرمین: مرکز الفرقان التعلیمی الخیری )

(حاجی پور، کٹیھار، بہار)  

اللہ تعالی پر ایمان اور اس کی عبادت کا تقاضا ہے کہ ہم اسکے احکامات و فرامین کے سامنے سر تسلیم خم کریں ، اسکی نازل کردہ شریعت کو بحیثیت دین قبول کر لیں ،اقوال و اعمال ،اصول و فروع ، آپس کی تنازعات ، اموال و انفس کے معاملات اور دیگر تمام شعیبائے زندگی میں ہم کتاب اللہ کی طرف رجوع کریں ، کیونکہ وہ کتاب اس ذات عالی کی ہے جو احکم الحاکمین ، شہنشاہ عالم اور مدبر کائنات ہے ، جو موت و زیست ، پرورش و پرداخت اور افزائش حیات کا مالک بھی ہے ۔لہذا اس نے اپنی کتاب میں جو حکم نازل فرمایا ہے ،اسی کو ہم اپنا حکم مانیں ، کیونکہ عدل و انصاف اسی کا متقاضی ہے ۔ اس لحاظ سے کہ جب اللہ تعالی نے انسان کو عدم سے وجود میں لایا ، اسے طرح طرح کی نعمتوں ، عقل و فہم ، شعور و آگہی سے نوازا بلکہ وپنے فضل و احسان کا ایسا تسلسل قائم کیا کہ اگر پلک جھپکنے کیلئے وہ موقوف ہوجائے تو انسان موت کے آغوش میں چلا جائے ۔ ایسے عظیم محسن و رب کائنات کا حق بنتا ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اس طرح کہ عبودیت کے ہر معنی کے لحاظ سے اس کی بندگی ہو جائے جس طرح ربوبیت کے ہر معنی کے لحاظ سے وہ پروردگار ہے ۔ الغرض وہ {وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون }( الذاریات : ۵۶) کی سچی تصویر ہو ۔

نیز اللہ تعالی کی نازل کردہ کتاب کی تشریح و تبلیغ میں جس ذات گرامی نے مرکزی کردار کیا ، اس کی اتباع و پیروی کر کے اس کی رضا حاصل کرے، کیونکہ قرآن کا مطالبہ انسان سے یہی ہے ، ارشاد ہے :{یا أیھا الذین أمنوا أطیعوا اللہ و أطیعوا الرسول }( النساء : ۵۹) اور فرمایا : {فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم }(النساء : ۵۶)۔

مذکورہ آیتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ شریعت مکمل ہو گئی ہمیں اپنے تمام معاملات زندگی کا حل کتاب اللہ و سنت رسول اللہ سے نکالنا ہوگا ۔ حکومت اسی رب ذو الجلال کی ہوگی جس نے شریعت مکمل کی اور شریعت سازی کے تمام دروازے کو بند کر کے خالص اسلامی قوانین کی اتباع کو واجب قرار دیا ، نیز منزل من اللہ احکام کے بجائے خود ساختہ قوانین کی اتباع کرنے والے کو مجرم و کافر گردانا ، ارشاد ہے : {و من لم یحکم بما أنزل اللہ فأولئک ھم الکافرون} ( المائدہ : ۴۴) یعنی کتاب و سنت کی مخالفت کرنے والا کافر ہے ۔ 

اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ تمام نزاعات و اختلافات میں قرآن و سنت کو حکم ماننا فرض ہے یہاں تک کہ علماء کے مابین اجتہادی اختلافات میں بھی ، کیونکہ کسی امام کا قول اگر موافق کتاب و سنت ہے تو سر آنکھوں پر ورنہ عدل و انصاف کی نگری میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ، اسی طرح پرسنل لا کے تمام حقوق ، مسائل و مشکلات ، مقدمات بھی ’’ ان الحکم الا اللہ ‘‘ کے تحت فیصل کئے جائیں ، کیونکہ اسلام ایسی اکائی ہے جس کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا ۔ 

الغرض عقیدہ و اعمال ، اخلاق و سلوک ، معاملات و لین دین ، سیاست و اقتصادیات ، تمام شعبہائے زندگی میں اسلامی قوانین ہی کا نفاذ ہوگا اور بس ، ارشاد بانی ہے : {و من یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ }(آل عمران : ۸۵) لیکن افسوس کہ آج کا مسلمان اس کی شعوری یا غیر شعوری طور پر مخالفت کر رہا ہے ، کوئی شرعی دلیل کے باوجود اسے چھوڑ کر امام کی تقلید کر رہا ہے ، کوئی ’’ ان الحکم الا اللہ ‘‘کی مخالفت میں بدعی طریقت کے دام فریب میں مبتلا ہے تو کوئی وضعی قوانین کا اسلامی قوانین کے مقابلہ میں افضل و مناسب قرار دے رہا ہے ۔ بلاشبہ یہ تینوں صورتیں باطل و غلط ہیں جیسا کہ علامہ البانی نے حدیث ’’لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ اللہ ‘‘ کی تشریح میں لکھا 

(تفصیل کے لئے دیکھئے سلسلۃ الصحیحۃ :۱؍ ۳۵۴- ۳۵۲) ۔

ہم اس مختصر تحریر میں اہل مغرب کے پرکشش و پر فریب اور پر خطر شیطانی چہرہ سے نقاب اٹھانا چاہتے ہیں جس سے پورا عالم اسلام دھوکا کھا گیا صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مغربی افکار و نظریات کی مخالفت کرنے والے کو قدامت پسند ، بنیاد پرست ، اور نہ جانے کتنے برے القاب سے ملقب کیا گیا تو آئیے دیکھیں وضعی قوانین کو اسلامی قوانین پر ترجیح دینا کیسا ہے اور کیا ایسا کرنے سے ’’ ان الحکم الا اللہ ‘‘اور ’’ لا طاعۃ لمخوق فی معصیۃ الخالق ‘‘ کی مخالفت ہوتی ہے یا نہیں ۔ 

وضعی قوانین اور اسلام 

اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ کسی دوسرے نظام یا قانون کو بطور حکم ماننا سراسر کفر ہے خواہ وہ کفر اکبر ہو یا کفر اصغر ؟ کیونکہ ارشاد بانی ہے: {و من لم یحکم بما أنزل اللہ فأولئک ھم الکافرون }(المائدہ : ۴۴) {ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فأولئک ھم الظالمون } (المائدہ:۴۵)۔

اگر کسی شخص کا یہ اعتقاد ہو کہ شریعت کا حکم ماننا واجب نہیں اس میں اس کو اختیار حاصل ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ دوسرے قوانین و نظامہائے زندگی کو اسلامی شریعت سے بہتر سمجھتا ہے یہ سوچ کر کہ شریعت اسلامیہ دور حاضر کے تقاضے کو پورا نہیں کرتا ہے یا یہ کہ اسلامی شریعت صرف انسان اور اس کے رب کے درمیان رابطہ قائم کرتا ہے ، یا پھر کفار و مشرکین و منافقین کی خوشنودی کے لئے وضعی (خود ساختہ ) قوانین کے دامن میں پناہ لیتا ہے تو وہ شخص کفر اکبر کا مرتکب ہے ، لیکن اگر اسکے برخلاف شریعت اسلامیہ کو نافذ کرنا فرض سمجھتا ہے اور اس کو پورا علم ہے اس کے باوجود اپنی عملی زندگی میں نفاذ نہیں کرتا تو وہ کفر اصغر کا مرتکب ہے ، ( مزید دیکھئے تہذیب العقیدۃ الطحاویۃ ص : ۲۴۳- ۲۳۸ ،اور کتاب التوحید شیخ فوذان کی ) کیونکہ جب علماء و مشائخ کی پیروی کو شریعت نے حرام قرار دیا ۔(آیت {اتخذوا أحبارھم و رھبانھم أرباباً من دون اللہ }( التوبہ : ۳۰) کی طرف اشارہ ہے )۔ باوجود اس کے کہ وہ دین سے قریب اور دینی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں تو پھر ایسے قوانین کی پیروی جو کفار و ملحدین کی وضع کردہ ہیں کیسے ان کی پیروی جائز ہو سکتی ہے ، حاشاء وکلا ۔

مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ کسی مسلم فرد یا کسی مسلم بادشاہ یاکسی مسلم جماعت و ملک کا انتساب کمیونزم ، سیکولرزم اور سرمایہ دارانہ نظام کی طرف کرنا صحیح نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کرام نے باطل نظریات و اسلام مخالف تحریکات کی تائید و نصرت اور اسکی طرف انتساب کو غلط قرار دیا ۔ 

وضعی قوانین علماء کی نظر میں 

مفسر کبیر علامہ ابن کثیر رقمطراز ہیں : شریعت اسلامیہ کو بالائے طاق رکھ کر آراء و اھواء پر مبنی قوانین کی پیروی حرام ہے ، یہی وجہ ہے کہ ساتویں صدی میں مسلمانوں نے ( شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی قیادت میں ) تاتاریوں سے جنگ کی کیونکہ ان کے یہاں شریعت نام کی کوئی چیز نہیں تھی ، اگر تھی بھی تو یہودیت ، نصرانیت اور بعض اسلامی امور پر مبنی قوانین تھے ، جن کی پیروی کتاب وسنت کی مخالفت تھی ۔ ( تفسیر ابن کثیر : ۲؍ ۹۴)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ ( مجموع الفتاوی ۲۸؍ ۵۲۴)اور شیخ محمد بن عبد الوہاب ( الرسائل الشخصیہ :۵۸؍۶۰) بھی قوانین وضعیہ کی حرمت کے قائل ہیں ۔

علامہ شنقیطی فرماتے ہیں : ــ’’ و بھذہ النصوص السماویۃ التی ذکرنا یظھر غایۃ الظھور أن الذین یتبعون القوانین الوضعیۃ التی شرعھا الشیطان علی ألسنۃ أولیاءہ مخالفۃ لما شرع اللہ عز وجل علی ألسنۃ رسلہ صلی اللہ علیہ وسلم أنہ لا یشک فی کفرھم و شرکھم الا من طمس اللہ بصیرتہ ‘‘ (اضواء البیان :۴؍۸۴)۔

عبارت کا خلاصہ یہ کہ وضعی قوانین سراسر باعث کفر ہیں ۔ 

شیخ احمد شاکر نے عمدۃ التفسیر میں لکھا ہے : دور حاضر میں مغرب کے ملحدانہ افکار و نظریات کے حامل تہذیب و ثقافت بھی اسی قبیل سے ہیں بلکہ اس کی پیروی کفر صریح کو دعوت دیتی ہے لہذا کسی اہل اسلام کیلئے مغربی تہذیب (سیکولرزم ، سرمایہ دارانہ نظام ، جمہوریت ) پر عمل جائز نہیں ۔ (عمدۃ التفسیر :۴؍۱۷۱ و ۱۷۴)۔ 

دور حاضر کے محدث و مفتی علامہ ابن باز ( دیکھئے رسالۃ وجوب تحکیم شرع اللہ ) اور محدث و محقق علامہ البانی (دیکھئے سلسلۃ الصحیحۃ :۱؍ ۳۵۴) کا بھی یہی موقف ہے ۔ 

ان توضیحات کی روشنی میں یہ حقیقت و اشگاف ہوگئی کہ انسانی زندگی میں کتاب و سنت ہی در اصل ماخذ و مرجع کی حیثیت رکھتی ہیں اسی کی روشنی میں اسے تمام معاملات حل کرانے ہوں گے اس لئے کہ حکومت و بالادستی صرف اللہ کی ہے کسی اور کی نہیں ، بالخصوص وضعی قوانین جو تباہی و فسادات کا پیش خیمہ ، تصادم و ٹکراؤ کا زینہ ، افلاس و غربت کا مخزن ہیں جیسا کہ سیکولرزم کے اصول و ضوابط اور اس کے بھیانک نتائج نیز جمہوریت و اشتراکیت کی تباہ کاریاں اس کے لئے شاھد عدل ہیں ۔ 

لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ’’ ان الحکم الا اللہ ‘‘ کے تحت انسان کی زندگی میں کسی بھی قوانین وضعیہ کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہئے ، کیونکہ یہ مودی الی الکفر ہیں ، اگر کفر و نفاق کی خوفناکی سے بچنا ہے تو اسے کتاب و سنت کو گلے لگانا ہوگا ۔ 

اللہ ہمیں اور ہمارے قاری کو اور عام مسلمانوں کو دور حاضر کے پر فریب نعروں سے بچائے اور اہل مغرب کی دسیسہ کاریوں سے محفوظ رکھے ۔ آمین   


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے