از قلم: عبد اللہ رحمت اللہ
روزوں کی فرضیت کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ ایمان والوں کے دلوں تقوی پیدا کیا جائے ،جیساکہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : ’’یاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ ’’اے ایمان والوں تم پر روزہ فرض کئے گئے جیساکہ تم سے پچھلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی ہو جاؤ ‘‘ یہاں فرضیت صیام کا مقصد تقوی بتا یا گیا ہے ۔
تقوی کا لفظ عربی کے لفظ قوی سے نکلا ، قوی کا مطلب پرہیزگاری ، بچانا ہوتا ہے لھذا تقوی کا ایک لغوی معنی ہے ، اور تقوی کا ایک اصطلاحی معنی ہے ،اصطلاحی معنی سے مراد میری اصطلاحی شریعت ہے ۔ اگر کوئی آدمی گناہوں سے اپنے آپ کو بچاتا ہے تو سمجھو وہ تقوی اختیار کر رہا ہے ، لیکن اسمیں قابل غور بات اور اہم بات یہ ہے کہ گناہوں سے اپنے آپ کو بچانے کا محرک سبب دنیا ہے تو اسکو تقوی نہیں کہیں گے ،مثلاً آدمی اپنے آپ کو زنا سے بچاتا ہے ، چوری سے اپنے آپ کو بچاتا ہے ، شراب سے اپنے آپ کو بچاتا ہے ، ان تمام گناہوں سے اپنے آپ کو بچاتا ہے مگر اس بچنے کا محرک دنیا ہے ،مثلاً پولیس کے خوف سے ، بدنامی اور رسوائی کے خوف سے ، قیدو بند کی صعوبتوں کا تصور کرنے کی وجہ سے ، اگر ان تمام اسباب کی وجہ سے گناہوں سے اپنے آپ کو بچا رہا ہے تو وہ گناہوں سے اپنے آپ کو تو بچا رہا ہے مگر اسکو اصطلاح شریعت میں تقوی نہیں کہیں گے ، کیونکہ یہاں گناہوں سے بچنے کا محرک دنیا ہے ۔ اسکو احتیاط گوشی کہیں گے ، تقوی نہیں ۔ لیکن اگر کوئی آدمی ان گناہوں سے اپنے آپ کو بچاتا ہے خوف خدا کی وجہ سے تو اسکو اصطلاح شریعت میں تقوی کہیں گے ۔
خلاصہ یہ نکلا کہ گناہوں سے اپنے آپ کو بچانے کا محرک و سبب اگر دنیاوی ہے تو وہ تقوی نہیں احتیاط گوشی ہے لیکن کوئی آدمی اپنے آپ کو گناہوں سے بچا رہا ہے اور اس کا محرک خوف خدا ہے تو اصطلاح شریعت میں اسکو تقوی کہتے ہے ۔
قارئین کرام :
تقوی کے کئی مدارج ہیں ۔ تقوی کا پہلا درجہ ہے حصول تقوی ، دوسرا درجہ ہے بقائے تقوی ، اور تیسرا درجہ ہے حق تقوی ۔تو آئیے سب سے پہلے جانیں کہ سب سے بڑا تقوی کیا ہے ۔ حدیث پاک میں ہے ’’عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ أَوْ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ { هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ } فَقَالَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَا أَهْلٌ أَنْ أُتَّقَى فَلَا يُجْعَلْ مَعِي إِلَهٌ آخَرُ فَمَنْ اتَّقَى أَنْ يَجْعَلَ مَعِي إِلَهًا آخَرَ فَأَنَا أَهْلٌ أَنْ أَغْفِرَ لَهُ‘‘انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی { هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ }یہ تقوی والے اور مغفرت والے ،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارا رب عز و جل یہ کہتا ہے کی میں اس بات کا اھل ہوں ، لائق ہوں کہ میرے ساتھ کسی دوسرے کو معبود بنائے جانے سے بچایا جائے ، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے اس کا میں اھل ہوں اور جو شخص اپنے آپ کو اس بات سے بچاتا ہے کہ میرے ساتھ کسی اور کو معبود نہیں مانتا تو وہ اس لائق ہے کہ میں اسے بخش دوں ۔ اس حدیث سے معلوم یہ چلتا ہے کہ سب سے بڑا تقوی توحید ہے ، تقوی کا سب سے اعلی درجہ اور سب سے بڑا تقوی توحید ہے جیسا کہ اس حدیث پاک سے ثابت ہے ۔
تقوی کی فضیلت :
تقوی کی فضیلت حدیث پاک میں یوں بیان کی جاتی ہے ’’عن معاذ بن جبل قال: لما بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن خرج معه رسول الله صلى الله عليه وسلم يوصيه ومعاذ راكب ورسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي تحت راحلته، فلما فرغ قال: " يا معاذ إنك عسى أن لا تلقاني بعد عامي هذا ولعلك أن تمر بمسجدي هذا، وقبري ".فبكى معاذ جشعا لفراق رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم التفت فأقبل بوجهه نحو المدينة فقال: " إن أولى الناس بي المتقون من كانوا وحيث كانوا "‘‘(مسند:22052) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہے ، ایک دفعہ مجھے نبی ﷺ یمن بھیج رہے تھے ، بڑی دور تک چلتے چلتے میرے ساتھ آگئے ، معاذ سواری پر سوار ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ سواری کے نیچے نیچے چل رہے ہے ،معاذ اترنا چاہا لیکن نبی کریم ﷺ نے کہا نہیں بیٹھے رہو ، جب جدا ہونے لگے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے معاذ جا تو رہے ہو لیکن شاید اسکے بعد تم سے میری ملاقات نہ ہو ، اور جب تم آؤ تو میری اس مسجد کے پاس سے گزرو ، یا میری قبر سے گزرو ، شاید اسکے بعد میری ملاقات نہ ہو یہ سنتے ہی معاذ ابن جبل رسول اللہ ﷺ کے جدائی کا تصور کر کے زارو قطار رونے لگے ، اور نبی کریم ﷺ پلٹے اور مدینہ کے طرف رخ کیا ، اور اسکے بعد حضرت معاذ سے یہ کہا گھبراؤ نہیں ’’ " إن أولى الناس بي المتقون من كانوا وحيث كانوا "‘‘قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب وہ ہوں گے جو تقوی والے ہوں گے جن کے دلوں میں اللہ رب العزت کا تقوی ہوگا اور وہ جہاں کے بھی رہنے والے ہو اور جو بھی ہو ۔ یہ حدیث بتا رہی ہے کہ اگر قیامت میں نبی پاک ﷺ کے ساتھ ہمیں رہنا ہے تو ہمیں تقوی میں زندگی بسر کرنی ہوگی ،تقوی اختیار کرنا ہوگا ۔
یہ تقوی کے فضیلت کے اوپر ایک بہت پیاری اور بہت اچھی حدیث ہے ۔
آج سب سے زیادہ ضرورت کس چیز کی ہے ، سب سے زیادہ ضرورت انسان کو نجات کی ہے ، نجات کیسے ملے اور اس کے بعد سب سے زیادہ ضرورت انسانوں کو اتحاد کی ہے ۔ اللہ تعالی نے چوتھے پارے میں سورہ آل عمران کے اندر یہ بتا دیا کہ نجات کا دار و مدار دو اصولوں پر ہیں ، اور اتحاد کی بقاء بھی انہیں دو اصولوں پر ہیں ۔ جو ان دو اصولوں کو برتے گا وہ متحد رہے گا اور نجات جنہیں چاہئے وہ ان دو اصولوں کو اپنی زندگی میں لائے ۔ وہ دو اصول یہ ہیں ۤ’’یاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ،وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُو ‘‘ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ، اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا ۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو ۔ یہاں اللہ سے ڈرنا پہلا اصول ہے اور دسرا قرآن اور حدیث کو مضبوطی سے تھامنا ۔ ان دونوں چیزوں کے اوپر نجات کا دارو مدار ہے ، اگر کسی کو نجات چاہئے تو تقوی اختیار کرے اور قرآن و حدیث کو مضبوطی سے پکڑ لے ،نجات مل جائیگی ۔ اور اتحاد بھی انہیں دونوں اصولوں کو سامنے رکھ کر کے ممکن ہوگا ۔ اگر ان دونوں اصولوں کو چھوڑ دیا جائے تو کبھی اتحاد نہیں ہوگا ۔ آج غور کیا جائے کہ مسلمان جو مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں تو معلوم ہوگا یہی دو چیزیں مسلمانوں میں نہیں ہے ۔
تقوی کے درجات کیا ہے ؟
تقوی کے تین مراتب ہیں ۔
پہلا مرتبہ ہے حصول تقوی : یہ بہت سارے نیکیوں کے ذریعہ حاصل ہو جاتا ہے ، خاص طور سے رمضان کے روزوں کے ذریعہ ، تو رمضان کے روزے رکھئےآپ نیکیاں بہت زیادہ کیجئے ، آپ کو تقوی حاصل ہو جائےگا ۔
اب دوسرا درجہ بقاے تقوی ہے یعنی جو تقوی حاصل کیا گیا نیکیوں کے ذریعہ اب اسکو باقی کیسے رکھا جائے ،تو تقوی کو باقی رکھنے کیلئے اچھی صحبت کا اختیار ضروری ہے تب تقوی باقی رہے گا ، اگر غلط صحبت میں پڑ گئے تو تقوی کی تقویت ختم ہو جائےگی وہ آپ کے ہاتھ سے نکل جائےگا ۔اللہ رب العزت کا ارشاٰد ہے’’ یا َیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘ ایے ایمان والو اللہ کا تقوی اختیار کرو اور سچوں کی صحبت اختیار کور ۔ اللہ رب العالمین کا تقوی کے بعد سچوں کی صحبت کا کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ تقوی حاصل کرنے کے بعد اسکو باقی رکھنے کیلئے صحبت صادقہ کا اختیار ضروری ہے ، صحبت صادقہ سے مراد علماء کی صحبت ،علماء کی صحبت اختیار کیا جائے ، علماء سے مسائل معلوم کیا جائے ، علماء سے قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کیا جائے ۔ جب علماء کی صحبت اور اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کریں گے تو تقوی باقی رہے گا ورنہ تقوی حاصل ہو کر کے بھی تقوی ہاتھ سے نکل جائگا ۔
یہ قرآن کی آیت تھی بقائے تقوی کے ثبوت میں اب ایک حدیث پاک لے لیجئے بقائے تقوی کے ثبوت میں ’’ أبي سعيد سعد بن مالك بن سنان الخدري عن نبي الله ﷺ قال: كان فيمن كان قبلكم رجل قتل تسعة وتسعين نفسًا، فسأل عن أعلم أهل الأرض فدُل على راهب فأتاه فقال: إنه قتل تسعة وتسعين نفسًا، فهل له من توبة؟ فقال: لا، فقتله فكمل به مائة، ثم سأل عن أعلم أهل الأرض، فدُل على رجل عالم، فقال: إنه قتل مائة نفس، فهل له من توبة؟ فقال: نعم، ومن يحول بينه وبين التوبة؟ انطلق إلى أرض كذا وكذا، فإن بها أناسًا يعبدون الله تعالى فاعبد الله معهم، ولا ترجع إلى أرضك، فإنها أرض سوء، فانطلق حتى إذا نصف الطريق أتاه الموت، فاختصمت فيه ملائكة الرحمة وملائكة العذاب، فقالت ملائكة الرحمة: جاء تائبًا مقبلاً بقلبه إلى الله تعالى، وقالت ملائكة العذاب: إنه لم يعمل خيرًا قط، فأتاهم ملك في صورة آدمي، فجعلوه بينهم -أي حكمًا- فقال: قيسوا ما بين الأرضيْن، فإلى أيتهما كان أدنى فهو له، فقاسوه فوجدوه أدنى إلى الأرض التي أراد، فقبضته ملائكة الرحمة متفق عليه‘‘ حضرت ابو سعید سعد بن مالک بن سنان الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے لوگوں میں ایک ایسا شخص تھا جس نے ننانوے لوگوں کو قتل کیا، چنانچہ اس نے روئے زمین کے سب سے زیادہ علم والے کے بارے میں پوچھا، اسے ایک راہب کی طرف اشارہ کیا گیا، تو وہ اس کے پاس آیا اور کہا: اس نے ننانوے لوگوں کو قتل کیا، تو کیا اس کی توبہ ہے؟ اس نے کہا:نہیں، تو اس نے اسے قتل کر دیا اور سو پوری کر دی، پھر اس نے زمین والوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے کے بارے میں پوچھا، اور اسے ایک صاحب علم کی طرف اشارہ کیا گیا، تو اس نے کہا: اس نے سو جانوں کو قتل کر دیا۔ کیا اس کی کوئی توبہ ہے؟ اس نے کہا: ہاں،کون تیرے درمیان اور توبہ کے درمیان حائل ہو سکتا ہے ؟(ٹھیک ہے توبہ کر لو لیکن جس ماحول میں تم رہ رہے ہو وہ ماحول ٹھیک نہیں ہے اسلئے ) فلاں سرزمین کی طرف جاؤ، کیونکہ وہاں لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، لہٰذا ان کے ساتھ مل کر اللہ کی عبادت کرو، اور اپنی سرزمین کی طرف نہ لوٹو، کیونکہ یہ بدی کی سرزمین ہے، تو وہ چل پڑا یہاں تک اسکی آدھے راستے میں موت ہو گئی ،تو رحمت کے فرشتہ اور عذاب کے فرشتہ (دونوں میں ) جھگڑا ہو گیا ،اور رحمت کے فرشتہ نے کہا وہ توبہ کرتے ہوئے آیا ہے اسکا دل اللہ کی طرف مائل ہوا ہے ،اور عذاب کے فرشتہ نے کہا کے اس نے کبھی نیکی نہیں کی تو ایک فرشتہ ان کے پاس انسان کی شکل میں آیا اور انہوں نے اسے اپنے درمیان یعنی ایک ثالث بنا دیا اور فرمایا: دو زمینوں کے درمیان فاصلہ ناپ لو، ان میں سے جو بھی قریب ہو وہ اس کا ہے تو انہوں نے اسے ناپا اور اسے اس زمین کے قریب پایا جس کا وہ چاہتا تھا تو رحمت کے فرشتہ نے اسے پکڑ لیا(متفق علیہ ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ ماحول اگر خراب ہو تو ماحول کا اثر آدمی کی طبیعت کے اوپر پڑتا ہے ، ماحول سے مزاج بدل جاتا ہے ، آدمی کی طبیعت بدل جاتی ہے ، آدمی کا انداز بدل جاتا ہے ، انداز فکر بدل جاتا ہے ۔لھذا غلط صحبتوں سے اجتناب ضروری ہے ۔
تیسرا مرتبہ حق تقوی ہے ۔ اللہ کا ارشاد ہے ’’یاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ‘‘اے ایمان والو تقوی اختیار کرو جیسا کہ تقوی کا حق ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کا تقوی سمجھا میں آیا لیکن یہ حق تقوی کیا ہے ۔ حق تقوی کی تفسیر خود جناب محمد ﷺ نے کی ہے :’’عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قالَ: قالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «”﴿اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ﴾“،أنْ يُطاعَ فَلا يُعْصى، ويُذْكَرَ فَلا يُنْسى، ويُشْكَرَ فَلا يُكْفَرَ‘‘حضرت عبد اللہ ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت پڑھی ’’﴿اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ﴾‘‘اللہ سے ڈرو اور اللہ کا تقوی ایسا ہونا چاہئے کہ تقوی کا حق ادا ہو جائے (تو حق تقوی کیا ہے ) اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ حق تقوی یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت کی جائے کبھی اسکی نافرمانی نہ کی جائے ، اسکا ذکر کیا جائے کبھی اسے بھولا نہ جائے ، اور اسکا شکر ادا کیا جائے کبھی ناشکری نہ کی جائے ۔ یہ حق تقوی ہے
اخیر میں اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں تقوی اختیار کرنے کی ،اسکے حقوق پر عمل کرنے کے ساتھ بقائے تقوی کی توفیق دے آمین ۔
0 تبصرے